مدرسہ کے طلبہ کے نام
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک طویل روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اس میں دیگر باتوں کے علاوہ مسلم عاقل کی صفات بھی بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ اس کو اپنے زمانہ سے باخبر ہونا چاہئے ( أن یکون بصیرا بزمانہ)۔صحیح ابن حبان،حدیث نمبر 361۔یہ ایک بے حد اہم ہدایت ہے۔ آپ کو چاہئے کہ آپ صرف واقفِ دین نہ بنیں، بلکہ اسی کے ساتھ واقفِ زمانہ بھی بنیں۔ اس کے بعد ہی آپ موجودہ زمانہ میں دین کی صحیح خدمت کر سکتے ہیں۔
واقف زمانہ بننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی کمیونٹی کے خلاف ہونے والے ’’ظلم اور سازش‘‘ کو جاننے والے بن جائیں۔ یہ میرے نزدیک سطحیت ہے، نہ کہ علم۔ یعنی یہ ظواہر کو جاننا اور حقائق سے بے خبر رہنا ہے۔ علم بلا شبہ یہ ہے کہ آدمی اصل حقیقت کو جانے، نہ یہ کہ اس کی نگاہ ظاہری چیزوں پر اٹک کر رہ جائے۔اگریہ مان لیا جائے کہ دوسری قومیں مسلمانوں کے خلاف سازش اور ظلم میں مصروف ہیں، تب بھی اصل جاننے کی بات یہ ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں جنہوں نے ان قوموں کو یہ حیثیت دے دی ہے کہ وہ ہمارے خلاف کامیاب سازشیں کرسکیں۔ وہ ہمارے خلاف اپنے منصوبوں کی کامیاب تعمیل کریں اور ہمارے تمام اعاظم و اکابر اس کو روکنے میں مکمل طورپر عاجز ثابت ہوں۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی اصل کمی یہ ہے کہ وہ عصر حاضر سے ناواقف (unaware) ہیں۔ وہ ماضی کو جانتے ہیں، مگر حال کی انہیں مطلق خبر نہیں۔ ان میں سے کوئی شخص اگر کچھ جانتاہے تو وہ بھی کچھ ظاہری چیزوں کو جانتا ہے، نہ کہ گہرے معنوں میں حقیقی حالات کو۔ دینی مدرسوں کے طلبہ اگر صرف ’’حیوان کا سب‘‘ بن کر نہیں رہنا چاہتے، بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو مفید طورپر لگائیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ عصر حاضر کو اس کی گہرائیوں کے ساتھ جانیں، وہ موجودہ زمانہ کی ان تبدیلیوں سے واقفیت حاصل کریں جنہوں نے ہمارے مروجہ طریقوں کو عملی اعتبار سے بالکل غیر موثر بنا دیا ہے۔