و ٔ طا شدید
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں لمبی نمازیں پڑھتے تھے۔ اس نماز کے لیے قرآن میں وطأشدید (المزمل6:)کا لفظ آیا ہے۔ وطأ شدید کا مطلب ہے شدت کے ساتھ روندنا، یعنی مشقت کی حد تک اللہ کی عبادت کرنا۔ یہ فعل روحانی ترقی (spiritual development) کا اہم ذریعہ ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک عام عمل ہے۔ عبادت کے حوالے سے اس کو قرآن میں وطأشدید کہا گیا ہے، اور عمومی حوالے سے اس کو حدیث میں بلاء شدید بتایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں حدیث کے یہ الفاظ قابل غور ہیں:إن من أشد الناس بلاء الأنبیاء، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم(مسند احمد، حدیث نمبر 27079)۔ یعنی بیشک لوگوں میں سب سےزیادہ بلاء پیغمبروں پر آتی ہے، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان کی فطرت کے اندر پیدائشی طور پر خالق کی معرفت رکھ دی گئی ہے۔ مگر یہ معرفت بالقوۃ (potential) انداز میں ہے۔ اس بالقوۃ کو بالفعل (actual) بنانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان پر دباؤ (pressure) کے تجربات گزریں۔ یہی دباؤ کا تجربہ ہے جو کسی آدمی کےلیے بالقوۃ معرفت کو بالفعل معرفت بنا دیتا ہے۔ یہ تجربہ عام انسان کے لیے عمومی سطح پر پیش آتا ہے، اور پیغمبر وں کے لیے خصوصی سطح پر۔
اس بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ معرفت کا علم آدمی کوکتابی مطالعے سے حاصل ہوجاتا ہے۔ لیکن دریافت (discovery) کے درجے میں معرفت کا حصول صرف اس وقت ممکن ہے جب کہ آدمی بلاء شدید کے مرحلے سے گزرے۔ بلاء شدید آدمی کو حساس بنا تی ہے۔حساسیت(sensitivity) آدمی کے اندر قوت اخذ (grasp) کا مادہ پیدا کرتی ہے۔ اس کے بعد آدمی اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ ذاتی دریافت کے درجے میں معرفت کو حاصل کرسکے۔