اعلان کے بغیر معاہدہ
قرآن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے: لا تنقَضِی عَجائِبُہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2906)۔ یعنی قرآن کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے۔ یہی بات سنت رسول کے بارے میں صادق آتی ہے۔ رسول اللہ کی سنتوں میں ایسے حکمت کے پہلو ہیں، جو کبھی ختم نہ ہوں گے، اورآپ کےپیرو اُن کو دریافت کرکے اُن سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔ میرے مطالعے کے مطابق، اِنھیں سنتوں میں سے ایک سنت وہ ہے، جس کو بلااعلان معاہدہ (undeclared agreement) کہا جاسکتا ہے۔
اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کے زمانے میں مکہ میں کعبہ تین سو ساٹھ بتوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس بنا پر وہاں سارے عرب سے بتوں کے پرستار بتوں کی زیارت کے لیے آیا کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام نے یہ حکمت اختیار کی کہ آپ کعبہ میں بتوں کی موجودگی کے بارے میں بلااعلان غیر جانب دار بنے رہے۔ اس طرح آپ کے اور بت کے پرستاروں کے درمیان گویا بلااعلان ایک معاہدہ ہوگیا۔ وہ یہ کہ رسول اللہ روزانہ کعبہ کے علاقے میں جاتے، اور وہاں بتوں کے پرستاروں کو آڈینس (audience) کے طور پر استعمال کرتے رہے۔اس حکمت نے رسول اللہ کے مخالفین کو عملاً آپ کاموید (supporter)بنا دیا۔
موجودہ زمانے کے مسلمان اس سنت سے بے خبر ہیں۔ اگر وہ اس حکیمانہ سنت کو جانیں، تو وہ آج بھی اس سنت کو زندہ کرسکتے ہیں، اور اس طرح یہ حیرت انگیز واقعہ پیش آسکتا ہے کہ جن لوگوں کو مسلمان اپنا دشمن سمجھے ہوئے ہیں، وہ دوبارہ ان کے موید (supporter) بن جائیں گے۔
یہ بھی غالباً اس مذکورہ حکمت کا ایک پہلو ہے، جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔