اللہ کی مدد
قدیم مصر میں جب بنی اسرائیل پر فرعون کا ظلم بہت بڑھ گیا۔ اس وقت پیغمبر موسیٰ نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اِسْتَعِینُوا بِاللَّہِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّہِ یُورِثُہَا مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ (7:128)۔ یعنی اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو۔ زمین اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی اللہ سے ڈرنے والوں ہی کے لئے ہے۔
اللہ سے مدد کی دعا کرنا، بندے اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے۔ اس معاملے میں صبر کی تلقین کیوں کی گئی۔ صبر کا دعا سے کیا تعلق ہے۔ یہ ایک بے حد اہم بات ہے۔ اگر آدمی دعا کی اس حقیقت کو نہ جانے تو وہ دعا کے بعد مایوسی کا شکار ہوسکتا ہے۔ دعا کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ اللہ سے آپ دعا کریں، اور اللہ فوراً آپ کی مطلوب چیز اٹھا کر آپ کو دے دے۔اگر آپ کی دعا واقعۃً ایک سچی دعا ہے، تب بھی اللہ مینج (manage) کرکے آپ کی دعا کو پورا کرتا ہے۔ دعا کو پورا کرنے کے لیے اللہ کو بہت سے انسانوں کی سرگرمیوں کو مینج کرنا ہوتا ہے۔ وہ اس کا منصوبہ بناتا ہے تاکہ قوانین فطرت کو باقی رکھتے ہوئے آپ کی طلب کو پورا کرے۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اجتماعی تقاضوں کے درمیان ایک شخص کی انفرادی سطح پر دادرسی کی جائے۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ انسانی تاریخ کے مجموعی سفر کو جاری رکھتے ہوئے استثنائی طور پر ایک فرد کی ضرورت کو پورا کیاجائے۔
دعا کرنے والا تو اپنے ذاتی ارادے کے اعتبار سے دعا کرتا ہے۔ لیکن اللہ رب العالمین کو یہ کرنا ہے کہ وہ دوسروں کی سرگرمیوں کو منسوخ کیے بغیر فرد کی استثنائی حاجت پوری کرے۔ یہی وہ صورت حال ہے، جس کے لیے بندے کو دعا کے بعد صبر کرنا پڑتا ہے۔ دعا کے بعد صبر کرنا گویا اللہ رب العالمین کو ضروری وقت دینا ہے— صبر دعا کا لازمی حصہ ہے۔