وقت کا استعمال
ایک حدیث رسول ہے۔اس کا ترجمہ یہ ہے: اگر تم دیکھو کہ قیامت آگئی، اور تمھارے ہاتھ میں ایک پودا ہے، تو اس کو فوراً زمین میں گاڑ دو ( فلیغرسہا )۔مسند البزار، حدیث نمبر7408۔ اس حدیث رسول میں، ایک مثال کی صورت میں وقت کی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت اتنا زیادہ قیمتی ہے کہ اگر تمھارے پاس وقت (time) کا ایک لمحہ (moment) ہو تب بھی ضرور اس کو استعمال (avail) کرو، تمھارا کوئی وقت غیر استعمال شدہ (unavail)نہ رہ جائے۔ تمھاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وقت کا ہرلمحہ تمھارے لیے ایک کار آمد لمحہ بن جائے۔
مولانا شبلی نعمانی(1857-1914) نے 1892 میں ایک بحری سفر کیا تھا۔ اس سفر میں انڈیا سے نہر سوئز تک پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ (1864-1930) ان کے ساتھ تھے۔ مولانا شبلی نے اپنی کتاب سفرنامہ روم و مصر و شام میں لکھا ہے کہ سفر کے دوران ایک بار سمندر میں سخت طوفان آگیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جہاز ڈوب جائے گا۔ اس وقت مولانا شبلی پروفیسر آرنلڈ کے کیبن میں گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ پروفیسر آرنلڈ خاموشی کے ساتھ ایک کتاب پڑھ رہے ہیں۔ مولانا شبلی نے کہا کہ جہاز ڈوبنے والا ہے، اور آپ کتاب پڑھ رہے ہیں۔ پروفیسر آرنلڈ نے اطمینان کے ساتھ جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ زندگی کا جو لمحہ باقی ہے، اس کو میں استعمال کرلوں۔
وقت سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ مگروقت ہر لمحہ بھاگ رہا ہے۔ زمین کے سفر کی رفتار ایک ہزار میل فی گھنٹہ ہے۔ اس کے مقابلے میں روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ ہے۔ وقت کی رفتار اس سے بھی زیادہ ہے۔ مزید یہ کہ جو وقت چلا گیا، وہ دوبارہ واپس آنے والا نہیں۔ جس آدمی کو اس حقیقت کا احساس ہو، وہ وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرے گا۔ وہ چاہے گا کہ وہ دوڑتے ہوئے وقت کو پکڑے۔ وقت کو استعمال کیے بغیر اس کو ہرگز آگے نہ بڑھنے دے۔ ایسے ہی لوگ اپنی زندگی کو کارآمد بناتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ کوئی بڑا کام کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔