فوکس کو سمیٹنا
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر بہت سی تحریکیں اٹھیں۔ یہ تحریکیں مثبت معنوں میں کوئی نتیجہ خیز کام نہیں کرسکیں۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ تقریباً ہر ایک نے اپنے فوکس کو پھیلایا۔ انھوں نے جامعیت کے غلط تصور کے تحت بہت سے کاموں کو اپنے دائرے میں لے لیا۔ یہ کام کا صحیح طریقہ نہیں۔ کام کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ فوکس کو سمیٹا جائے۔صرف فوکس کو سمیٹنے کی شکل میں کوئی بڑا کام ہوسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دور آخر کے لیے اہل ایمان کو یہ نشانہ دیا تھا، جب کہ آپ نےکہا تھا: لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر، ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد، حدیث نمبر 23814 )۔ یعنی روئے زمین پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر باقی نہیں بچے گا، مگر اللہ اس میں اسلام کے کلمہ کو داخل کردے گا۔اس حدیث میں ادخال کلمہ سے مراد عملاً ادخال قرآن ہے۔ یعنی قرآن کو ہر گھر میں اور ہر انسان تک پہنچایا جائے۔ گھر سے مراد رہائش گاہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر تعلیم گاہ، ہر لائبریری، ہر ادارہ،ہر ہوٹل، وغیرہ میں اس کو پہنچادینا۔
یہ حدیث بظاہر دور آخر کےلیے ہے، جب کہ کمیونی کیشن کا زمانہ آجائے۔ قرآن کو ہر زبان میں ترجمہ کرکے اس کو ہر گروہ کی قابل فہم زبان (understandable language) میں پہنچانا ممکن ہوجائے، خواہ پرنٹ ایڈیشن کے ذریعہ ہو یا الیکٹرانک ایڈیشن کے ذریعہ۔ مسلمان لمبے عرصے سے پولیٹکل ایمپائر کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ فوکس کو سمیٹا جائے، اور صرف ایک کام کو اپنا فوکس بنایا جائے، اور وہ ہے قرآن کے اشاعتی ایمپائر کا قیام۔ جیسا کہ عیسائیوں نے ویٹیکن کو بائبل کا اشاعتی ایمپائر بنا دیا ہے۔ دعوت کے پہلو سے اسلام کا نشانہ کنورزن یا پولیٹکل غلبہ نہیں ہے۔ بلکہ صرف پرامن طور پر ابلاغ (پہنچادینا) ہے۔ داعی کا کام پہنچا دینا ہے۔ اس کے بعد یہ مدعو کا معاملہ ہے کہ وہ اس کو قبول کرتا ہے یا نہیں۔قرآن میں یہ حکم 20 سے زائد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔ان میں سے ایک یہ ہے:مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ (5:99)۔