بڑا فتنہ
پیغمبر اسلام کی طرف منسوب کرکے ایک روایت اس طرح آئی ہے: الامام الجائر خیر من الفتنۃ (ادب الدنیا و الدین للماوردی، صفحہ 219)۔ یعنی ظالم حکمراں فتنہ سے بہتر ہے۔یہاں ظالم سے مراد حقیقی ظالم نہیں ہے، بلکہ وہ حاکم ہے جس کو کچھ لوگ ظالم سمجھ لیں، اور ان کے خلاف لڑائی چھیڑ دیں۔ حکمراں سے لڑائی کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ واقعہ اس وقت ہوتا ہے، جب کہ کچھ لوگ کسی حاکم کے خلاف شکایات کو لے کر اس کو ظالم بتائیں، اور ظالم کے ظلم کو ختم کرنے کے نام پر اس سے لڑائی چھیڑ دیں۔
ظاہر ہے کہ حاکم جب اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرے گا تو وہ اس کو مٹانے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دے گا۔ اس طرح یہ ہوگا کہ جو چیز پہلے صرف بظاہر ظلم تھی، وہ اب جنگ و قتل کی صورت اختیار کر لے گی۔ لوگ مارے جائیں گے، لوگ پکڑے جائیں گے، لوگوں کی آزادیاں چھینی جائیں گی، لوگوں کے اوپر نئی نئی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ مثلاً اگر وہ مسجد میں حاکم کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری کیےہوئے تھے، تو مسجد پر پابندی لگے گی،لوگ کتابوں میں حاکم کے خلاف باتیں چھاپ رہے تھے تو ایسی کتابیں ضبط کی جائیں گی۔ لوگ اگر جمعہ کے خطبے میں اس قسم کی باتیں کریں گے تو حکومت جمعہ کے خطبے کو اپنےچارج میں لے لے گی۔ اس طرح ظلم کے خلاف تحریک عملاً کاؤنٹر پروڈکٹو ثابت ہوگی۔ چھوٹے ظلم کے بعد بڑا ظلم پیدا ہوگا۔ لوگوں کی آزادیوں پر پابندی لگے گی۔ ظلم کے جواب میں تشدد پیدا ہوگا۔ اس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی کو نظر آئے کہ حاکم ظلم کر رہا ہے تو وہ اس کے مقابلے میں صبر کی پالیسی اختیار کرے۔ وہ یا تو اس معاملے میں بالکل خاموش رہے، یا اگر وہ کچھ کہنا چاہتا ہے تو وہ ہر گز جوابی تحریک نہ چلائے، بلکہ تنہائی میں حکمراں سے مل کو اس کو نصیحت کرے۔ اس سے زیادہ کچھ کرنا ظلم میں اضافہ کے ہم معنی ہے۔