خبرنامہ اسلامی مرکز — 257
قرآن کی عالمی اشاعت: سی پی ایس انٹرنیشنل کی یہ کوشش ہے کہ قرآن کے ترجمے اور دعوہ لٹریچر ہر زبان میں شائع کیے جائیں۔ تاکہ ہر انسان تک خدا کی بات اس کی قابل فہم زبان میں پہنچ سکے۔ اس کوشش کے نتیجہ میں ہندستان کی علاقائی زبانوں اور بین الاقوامی زبانوں میں قرآن کے ترجمے شائع ہو رہے ہیں۔ جن نیشنل زبانوں میں قرآن کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں وہ یہ ہیں: ہندی (اردو داں طبقہ کے لیے)، ہندی (ہندی داں طبقہ کے لیے)، کنڑ، گجراتی، پنجابی، تیلگو، ملیالم، تامل، اردو، اور بنگلہ (طباعت کے مرحلہ میں )۔ نیز جن بین الاقوامی زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: انگلش، فرنچ، جرمن، ڈچ، اٹالین، اسپینش، رشین، پرتگیز، چائنیز، پولش اور نابینا لوگوں کے لیے بریل ترجمہ۔ خواہش مند، حضرات، جو قرآن کے عالمی اشاعت کا حصہ بننا چاہتے ہیں، وہ گڈ ورڈبکس، یا سی پی ایس انٹر نیشنل (ای میل [email protected]) سے رابطہ قائم کریں۔
ایک خط: السلام علیکم، میرا نام زبیر ہے، میں افغانستان سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے بڑے بھائی، مولاناعبدالغفور پیروز کو دہشت گردوں نے مار ڈالا۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی تفسیر تذکیر القرآن کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ تفسیر ابھی تک طبع نہیں ہوئی ہے۔ مرحوم مولانا نے اللہ اکبر کا بھی ترجمہ کیاتھا، اور وہ مطبوع ہے۔ تفسیر بہت ضخیم ہے۔ آپ اسے چھاپیں اور ہمارے پاس بھیج دیں۔ ہمارے ایک ساتھی جلال الرحمن شرر کچھ عرصہ پہلے مولانا صاحب سے مل چکے ہیں۔ صدر اسلامی مرکز کی پشتو زبان میں ترجمہ شدہ کچھ کتابیں بھی انھوں نے آپ لوگوں کو دی تھیں، جن میں ایک امن عالم کا پشتو ترجمہ بھی ہے۔ میں کابل میں رہتا ہوں۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ اسلام کے صحیح پیغام کو افغانستان میں پھیلانے کی توفیق دے۔ آمین
ایک تجربہ: میرے گھر کے ایک فرد کو کینسر کی بیماری کے آخری درجہ میں ناگپور کے Snehanchal Palliative Care Centre میں داخل کیا گیا۔ میں نے وہاں یہ دیکھا کہ کس طرح اس دواخانہ میں مریضوں کی خدمت آخری حد تک کی جاتی ہے۔ انھیں ہمت دی جاتی ہے۔ وہ انہیں ہر طرح سے مثبت طریقے سے سوچنے کے قابل بناتے ہیں، اور دن میں دو بار سارے مریضوں کے لئے اجتماعی Prayer کی جاتی ہے جس میں خدائے واحد سے سب کے لئے خیر کی دعائیں کی جاتی ہیں۔میں نے سوچا انہیں CPS کا لٹریچر دینا چاہیے۔ جسےان لوگوں نے بہت خوشی سے قبول کیا۔ ادارہ کے ڈائرکٹر مسٹر نوین دیشپانڈے صاحب سے تفصیلی بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ یہ بہت اچھا کام کر رہےہیں۔ لیکن یہ کبھی نہیں سوچنا کہ یہ کام آپ لوگ کر رہے ہو۔ہم بھی اپنے کام کے بارے میں ایسا نہیں سوچتے۔بلکہ یہ سارے خیر کے کام ہمارا خدا کر رہا ہے۔اپنی خصوصی مدد کے ساتھ وہ ہمیں اس کام کے لئے استعمال کر رہا ہے۔یہی ہماری خوش نصیبی ہے۔ ایک اور خاص بات انھوں نے مولانا صاحب کی کتاب، ’موت کی یاد‘کا مراٹھی ترجمہ دیکھ کر کہا کہ اس کتاب کو یہاں کے ہر مریض کو دے دیا جائے، یہ سب کے کام کی کتاب ہے۔ اس پورےواقعے سے مجھے یہ سبق ملا کہ ہمارا رب اپنے پیغام کو ہر خاص وعام تک پہنچا کر رہے گا، اور ہر داعی کے ساتھ اس کی خصوصی مدد شامل حال ہے۔(ساجد احمد خان CPS ناگپور،[Mob. 8237006029] (
قرآن کا ایک تجربہ: 15 نومبر 2017کو میں سورت سے ممبئی کے لئے روانہ ہوا۔ ٹرین میں میرے پاس دوغیر مسلم بھائی بیٹھے ہوئے تھے۔ دونوں کی عمریں 25 سے 30 کے درمیان رہی ہوگی۔ دونوں پڑھے لکھے تھے۔میں جب بھی سفر پر جاتا ہوں انگلش قرآن کی کاپی ساتھ رکھتا ہوں، لیکن بہت کم ہی دینے کی ہمت کر پاتا ہوں۔ اس دن بھی میں نے چاہا کے میں انھیں قرآن دوں۔ لیکن ہمت نہ کر پایا کہ اچانک ٹرین میں ایک حادثہ پیش آیا، اور ٹرین رک گئی۔ لوگ اترکر مرنے والے کی فوٹو لینے لگے۔ لیکن ان میں کا ایک شخص وہیں بیٹھا رہا، اور افسوس کرنے لگا۔ جب اس کا ساتھی آکر اسے فوٹو دکھانے لگا تو اس نے منع کردیا کہ میرے اندر اس کو دیکھنےکی ہمت نہیں ہے۔ میں نے سمجھ لیا کہ یہ بھی میری طرح رقیق القلب ہے۔تھوڑی دیر کے بعد میں نے اپنی بیگ سے قرآن نکالا، اور پڑھنا شروع کیا۔ کچھ دیر پڑھنے کے بعد میں نے اسے ہاتھ ہی میں رہنے دیا، اور اللہ سے دعا کرنے لگا کہ اے اللہ، مجھ میں تو ہمت نہیں ہے تو کچھ ایسا کر کہ وہ خود مجھ سے قرآن مانگے،اور ایسا ہی ہوا۔ اس نے مجھ سے قرآن لیا، اور بہت دیر تک قرآن پڑھتا رہا۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ یہ تو بہت ہی آسانی سے سمجھ میں آ رہا ہے، اور پھر وہ قرآن کی فوٹو لینے لگا کہ میں اسے آرڈر سے منگوا لوں گا۔ میں نے اسے کہا کہ آپ اسے رکھ لیں، میرے پاس دوسری کاپی موجود ہے۔ اس نے وہ کاپی شکریہ کے ساتھ رکھ لی، اور مجھ سے پوچھا کہ اسے پڑھنے سے پہلے مجھے کیا کرنا پڑے گا، یعنی کس طرح رسپیکٹ دینی ہوگی۔جب اس نے یہ کہا تو میرے پاس ایک ہی جواب تھا: یہ آپ کے ایشور کی کتاب ہے، یہی سمجھ کر پڑھیں۔اس طرح سےہم دونوں جدا ہو کر اپنی اپنی منزل پر چلے گئے۔ دوسرے دن جب میں نے اپنا موبائل دیکھا تو اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس نے ذیل کا میسج بھیجا تھا:
Good morning, heartily thanks for the Quran …Prashant Somani
مولانا، اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ رحمت والے دین سے متعارف آپ نے کرایا اللہ کے بندوں سے محبت کرنا یہ ہمارے دین کی تعلیم ہے لیکن اس تعلیم کا حقیقی مفہوم ہم نے آپ سے سیکھا۔اللہ اس دعوت کی ذمہ داری کو ادا کرنے کی ہمیں توفیق دے۔آمین (محمد انس ندوی، سورت،گجرات [Mob. 9898217134])
درس قرآن: صدر اسلامی مرکز ہر اتوار کو درس قرآن دیا کرتے ہیں۔ ان تقاریر کو سی پی ایس انٹرنیشنل کی ویب سائٹ (www.cpsglobal.org)سے ڈاؤن لوڈ کرکے سنا جاسکتا ہے۔ اس درس قرآن کو سننے کے بعد کچھ لوگوں نے اپنے تاثرات بیان کیے ہیں، وہ ذیل میں دیے جارہے ہیں:
- آپ کے آج (5 نومبر 2017) کے درس قرآن (سورہ البقرۃ آیات 3-1) سے یہ واضح ہوا کہ اجتماعی معاملات میں پریکٹکل وزڈم کو مد نظر رکھا جائے، نہ کہ آئڈیل کو۔اس کے لئے ضروری ہے کہ آدمی رجل واق بن کر رہے، ورنہ وہ حصائد لسان کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ ھدی للمتقین کو جس طرح آپ نے بالکل نئے انداز میں بتایا ہے، ایک عالم دین کی حیثیت سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایسا اس سے پہلے میں نے نہیں سنا، نہ کسی اور لٹریچر یہ بات پڑھی ہے۔آپ نے جب یہ کہا کہ رسول اللہ نے 13 سال تک کعبہ میں بتوں کی موجودگی پر کچھ نہیں کہا— اس جملہ سے مجھے رسول اللہ کا اصل مشن کیا تھا واضح ہوا۔ وہ یہ کہ رسول اللہ دراصل انسان کو خدا سے جوڑنے کے لیے آئے تھے۔ آپ کا اصل فوکس انسان کا داخلی شعور تھا۔ انسان کو خدا سے جوڑنے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ تیرہ سال تک مکہ میں رہے، مگرآپ نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ بلکہ انسان کو شعور کی سطح پر خدا کی عظمت میں جینے والا بنانے میں لگے رہے۔ جب یہ بات مجھے سمجھ میں آئی تو اس کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ بالکل یہی اسلوب، یہی مقصد الرسالہ مشن کا بھی ہے۔ میں نے مولانا، آپ کو رسول اللہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پایا ہے۔ جب سے الرسالہ مشن سے جڑا ہوں، اور آپ کی باتوں کو سن رہا ہوں اور پڑھ رہا ہوں تو یہی مجھے لگا ہے۔
رہی درس قرآن سے متعلق بات تو مولانا، آپ نے جو درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس بارے میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں خود ایک مدرسہ کا فارغ ہوں۔ لیکن آپ جس طرح سے قرآن کی آیات کو واضح کر تے ہیں اور اسے ہماری روحانی غذا بناتے ہیں، ایسا میں نے نہیں دیکھا۔دیگر علماء کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ سلف نے جس طرح سے آیات کی تفسیر کی ہے، وہ امانت داری کے ساتھ ہم تک پہونچائیں، بس۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ لیکن آپ ان آیات کو دور جدید پر منطبق کرتے ہیں، اور اسے ہمارے لیے روحانی غذا بنادیتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسلام ہمارے لیے ہمارے اسلاف کی وراثت نہیں لگتا، بلکہ وہ ہماری ڈسکوری بن جاتا ہے۔ گویا اسلام میری اپنی دریافت ہے، نہ کہ کسی دوسرے کی طرف سے ملا ہوا ایک ورثہ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی باتیں سن کر پڑھ کر اسلام مزید نکھر کر آتا ہے، وہ ہمارے لیے مزید دلچسپی اور شوق کا دین بن جاتا ہے۔ ہمیں اس دن بہت خوشی ہوتی ہے جب کہ اسلام کی کوئی بات ڈسکور ہوجائے، اسلام کی کوئی بات ہماری روحانی غذا بن جائے۔ اللہ مجھے الرسالہ مشن پر ثابت قدم رکھے۔ اور زیادہ سے زیادہ اعلی معرفت حاصل کرنے کی توفیق دے تاکہ جنت میں اعلی درجہ مل سکے، آمین۔ (مولانا عبد الباسط عمری، قطر)
- اتوار (12 نومبر 2017)کے درس قران میں مولانا نے سورۃ البقرۃ کی آیت:انی جاعل فی الارض خلیفۃ(2:30)میں خلیفہ کی جو تشریح کی وہ میرے لیے بالکل نئی ہے، اوراس آیت کو ایک نئے اندازسے سمجھنے پر ابھارتی ہے۔ اس سے پہلے یہ آیت میرے لئے بہت زیادہ غیر واضح تھی۔خلیفہ کا مفہوم بہت ہی معنی خیز ہے۔اس سے پہلے میرے نزدیک سیاسی خلافت کا ہی تصور تھا۔ علمی و فکری خلافت کا تسلسل اور آخر میں دین رب کا مستند ہونا پھر اس کی حفاظت کی خلافت اور س کی اشاعت کے مطلوب مواقع اور وسائل کی خلافت،وغیرہ۔ الغرض سیاسی خلافت کے علاوہ دینی اور دعوتی خلافت کا جو تصور آپ نے بیان کیا، یہ میرے لیے واضح ہوا۔ اگر میں اس وضاحت سے محروم رہتا تو مطلوب الٰہی کے بارے میں مشتبہ رہ کر ہلاک ہوجاتا۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بھی سیاسی خلافت کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں، وہ دین رحمت کو دین زحمت بنا رہے ہیں۔ دین کی سیاسی تعبیر کرنے والے مقصد تخلیق کو اسی آیت سے واضح کرتے ہیں۔ مگر مفسرین کی ایک بڑی تعداد نے قوم در قوم اور نسل در نسل کی خلافت کو مانا ہے۔اس سےیہ واضح ہوا کہ قران کی اس آیت سے علمی اور دعوتی خلافت کا استدلال ممکن ہے،نہ کہ سیاسی اقتدار والی خلافت۔ اس کے بعد ایک اورچیز میرے لیے غیر واضح تھی۔ وہ یہ کہ خدا کےاس تخلیقی منصوبہ میں کسی قوم کا یا نسل کا یکے بعد دیگرے آنا، کیا ہے۔ اس میں کوئی بڑا معنوی مفہوم اور مقصود سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔جب آپ نے یہ کہا کہ انسان کی زندگی کے خاتمہ کے ساتھ ہی علمی ارتقاء کا انقطاع ہوجاتا تھا۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ علم و فکر کی تسلسل کے لئے خلافت کا پروسس جاری کیا جائے۔ یہاں تک کے خدا کادین محفوظ اور مستند ہوگیا، اور اس کی حفاظت اور اشاعت کے لئے حالات اور وسائل میسر ہوگئے۔ ماضی کی اسلامی خلافتوں نے نسل درنسل پیغام رب کو محفوظ کرلیا، اور اہل یورپ کی ایجادات نے مستند دین کی حفاظت اور اشاعت کا سامان کردیا۔گویا علمی خلافت کا مطلوب رول ادا کرنے کے لیے سارے وسائل ملے ہوئے ہیں۔ ایسے میں خلافت کو عالمی اقتدار کے معنی میں لینا خدا کے منصوبہ کو جیوپرڈائز (jeopardize)کرنے کے ہم معنی ہے۔ یہ مفہوم مجھے پہلی مرتبہ واضح ہوا۔اگر یہ نہیں جانتا تو خدا کا مطلوب جانے بغیر ہلاک ہوجاتا۔کیونکہ اختیار کی اس دنیا میں اقتدار کی جنگ چھیڑنا یہی سیاسی خلافت کی تبلیغ ہے، مگر اس کو اقامت دین کا خوبصورت نام دے دیا گیا ہے۔اس لیے جو بھی اس آیت کی بنیاد پر سیاسی خلافت کی تحریک چلاتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔یہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے دعوت دین کے لیےملے ہوئےمواقع کو موانع میں تبدیل کرنا ہے۔اس کے برعکس، آپ نے جو تصور خلافت دیا، یعنی علمی اور فکری طور پر ایک دوسرے کا خلیفہ ہونا۔ اس سے تخلیق انسانی کی مثبت توجیہ مل جاتی ہے، اور مذہبی و سیکولر دونوں طبقۂ انسان کا اعتراف ہوجاتا ہے۔ نیز دور جدید کی معنویت سمجھ میں آجاتی ہے۔ اس سےپر امن ایکشن اور اقدام کا راستہ مل جاتا ہے۔ یعنی خدا کے دین کو ہر ایک کے لیے پر امن طریقہ سے اویلبل(available) کرانا، اور ادخال کلمہ فی کل البیوت کا فرض ادا کرنا ہے۔جزاک اللہ خیرا (مولاناسیداقبال احمدعمری، عمرآباد، تامل ناڈو[Mob. 9994436917])
- مفسرین کا وہ اقلیتی گروپ جس نے خلیفہ اورخلافت کا سیاسی تصور ڈیولپ کیا تھا، انھوں نے لوگوں کے ذہنوں کو واقعی غوغائیت اور شورش پسندی سے بھردیاہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں مفسرین کی وہ اکثریت جنھوں نے اس آیت کی تشریح یخلف بعضھم بعضا جیسے الفاظ سےکی تھی، انھوں نے بھی خلیفہ اورخلافت کےمفہوم کو غیرواضح اور نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ ان دونوں کے برعکس، اتوار (12 نومبر 2017)کے درس قران میں آپ نے جو تشریح اور آیت کی واقعاتی توجیہ کی، اس سے مجھے پہلی مرتبہ خلیفہ اورخلافت کےمفہوم کی صحت مند اور واضح توجیہ ملی، اور میرا دل مذہبی اور سیکولر لوگوں کے کنٹری بیوشن کو لے کر شکر کے جذبات سے معمور ہوا، اور دعوت و ربانیت کے عملی تسلسل کو ایک مثبت جہت ملی۔(مولانا فیاض الدین عمری، گلبرگہ، کرناٹک [Mob. 9448651644])
- Thank you for the Quran! I work for a charity named Prisoners Abroad which supports British citizens in prison around the world. A number of the people we help are British Muslims. As they are in prison in a foreign country, even if they have the funds to purchase the Quran, they are often unable to find one in English. This last Quran you had sent me, I was able to send on to a person we are helping in prison in Italy. He was ever so grateful, as in Italy they are only available in Arabic and Italian, and I am told that other English speakers in the prison also study it. I would like to request for a larger supply of Qurans for sending out to our Muslim clients who request for them. We get approximately one request a month, so a parcel of 12 would probably last us a year and provide those of Muslim faith much needed support while they serve their sentences. Many thanks and kind regards. (Lee Hunnisett Prisoner & Family Support Co-ordinator Prisoners, London)
- I have immensely benefitted from your splendid literature. I have read almost 70% of your literature as a student. I usually go through Al-Risala, studying deeply every topic. It is replete with spiritual motivation, rational arguments and balanced analysis. l have gone through Tazkeerul Quran almost four times. It has a constructive approach, conceptual clarity and spiritual inspiration. It possesses a unique blend of knowledge and wisdom. Tazkeerul Quran is a unique commentary on the Quran that lays emphasis on dawah work and its prerequisites. Your literature emphasizes self-introspection and can help a person come out of frustration and negative thinking. It advocates universal peace and brotherhood. It creates a positive and constructive mindset. I am a teacher of Physics in a senior secondary CBSE-affiliated school. In search of truth, I tried to associate with other movements as well, but remained dissatisfied due to a lack of healthy and positive environment. It is only after going through your literature I came to know the fact that faith and belief are never traditional or ancestral, rather they are products of an intellectual discovery of God. I also distribute Al-Risala, Spirit of Islam, copies of the Quran and other suitable books from your literature. (Imteyaz Ahmad, Gaya, Bihar)