وضوح کا مسئلہ
وضوح (clarity) فکر یا تقریر و تحریر کا بے حد اہم پہلو ہے۔ یہ در اصل وضوحِ بیان ہے جو کسی کلام کو موثر (effective) بناتا ہے۔ جو کلام وضوح بیان سے خالی ہو، وہ عملاً ایک بے نتیجہ کلام بن جائے گا۔ وہ کہنے والے کے لیے ایک کلام ہوگا، لیکن سننے یا پڑھنے والے کے لیے وہ غیرواضح الفاظ کا ایک مجموعہ۔وضوح کی شرط صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ تقریر و تحریر سے پہلے آدمی خود اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔یہ حقیقت ہے کہ پیدا ہوتے ہی آدمی کی کنڈیشننگ شروع ہوجاتی ہے۔ اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:کل مولود یولد على الفطرة، فأبواہ یہودانہ، أو ینصرانہ، أو یمجسانہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔
ڈی کنڈیشننگ پہلے آدمی کی کنڈیشننگ کو ختم کرتی ہے۔ اس کے بعد انسان اس قابل بنتا ہے کہ وہ بے آمیز انداز میں سوچے۔ وہ آبجکٹیو انداز میں رائے قائم کرے۔ اس لیے جو لوگ اپنی ڈی کنڈیشننگ سے پہلے تقریر و تحریر کا عمل شروع کردیں، ان کا کیس کم و بیش putting the cart before the horse کا کیس بن جائے گا۔
اس معاملے کو استعارہ کی زبان میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی زندگی میں پہلے ’’غار حراء‘‘ کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کے بعد اس کی زندگی میں ’’اقرأ ‘‘کا دور شروع ہوتا ہے۔ یعنی پہلے سیلف تھنکنگ (self thinking)کے ذریعہ اپنے دماغ میں وضوح لانا، اور اس کے بعد لکھنے اور بولنے کا عمل شروع کرنا۔ اسی بات کو صحابی رسول جندب بن عبد اللہ نے کہا ہے: کنا مع النبی صلى اللہ علیہ وسلم ونحن فتیان حزاورة، فتعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، ثم تعلمنا القرآن فازددنا بہ إیمانا (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 61)۔ اس روایت میں غالباً اسی حقیقت کا ذکر ہے کہ ہم نے پہلے اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کی۔ پھر ہم نے اپنے کو اس قابل بنایا کہ ہم قرآن کو واضح انداز میں سمجھیں۔