اجتماعی زندگی کا ایک اصول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی دور میں صحابی ولید بن عقبہ اور بنو مصطلق کی نسبت سے ایک واقعہ پیش آیا (اس واقعہ کےلیے دیکھیں تفسیر ابن کثیر، تفسیر مظہری، وغیرہ)۔اس واقعہ کے بعد قرآن میں مندرجہ ذیل آیت اتری جس میں اجتماعی زندگی کا ایک رہنما اصول بتایا گیا ہے۔ وہ آیت یہ ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ (49:6)۔
ا س آیت میں بتایا گیا ہے کہ صرف سنی ہوئی بات پر کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ کیوں کہ سنی ہوئی بات اکثر اصل واقعہ کا محرف بیان (distorted version) ہوتی ہے۔ اگر آپ صرف سن کر کسی بات کو مان لیں تو عین ممکن ہے کہ آپ کا رد عمل نادانی کا عمل ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ بات کو سننے کے بعد اس کی باقاعدہ تحقیق (scrutiny)کی جائے، اور پھر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جائے۔ ایسا کرنے کی صورت میں آپ اُس معاملہ میں صحیح رسپانس (response) دے پائیں گے۔
اجتماعی زندگی کےلیے یہ ایک اہم اصول ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ ہوگا کہ معاشرہ بگاڑ کا معاشرہ بن جائے گا— سن کر مان لینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پہلے غلط فہمی پیدا ہوگی۔ اس کے بعد شکایت اور نفرت کا سلسلہ جاری ہوجا ئے گا۔ عمل اور ردعمل(reaction) کے نتیجے میں یہ سلسلہ بڑھتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ بریک ڈاؤن (breakdown )تک پہنچ جائے گا۔
اس لیے ضروری ہے کہ سنی ہوئی بات کی بے لاگ انداز میں تحقیق کی جائے۔ تحقیق کے تقاضے کو پورا کیے بغیر کوئی رائے قائم نہ کی جائے۔ کسی بھی حال میں رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ اس طرح کے معاملے میں جو روش اختیار کی جائے، وہ جذبات پر مبنی نہ ہو،بلکہ وہ حقیقت واقعہ پر مبنی ہو۔