احسن العمل
انسان کے بارے میں تخلیقی منصوبہ کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (67:2)۔یعنی خالق نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سب سے اچھے عمل والا کون ہے۔اس آیت کا مطلب یہ ہےکہ پیدا ہونےوالے انسانوں میں سے احسن العمل کا انتخاب کرنا۔
قرآن کی اس آیت کا مفہوم ایک اور آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ آیت یہ ہے: مَنْ کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَہُ فِی حَرْثِہِ وَمَنْ کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہِ مِنْہَا وَمَا لَہُ فِی الْآخِرَةِ مِنْ نَصِیبٍ (42:20)۔ یعنی جو شخص آخرت کی کھیتی چاہے ہم اس کو اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے۔ اور جو شخص دنیا کی کھیتی چاہے ہم اس کو اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے پودگاہ (nursery) کی مانند ہے۔پود گاہ میں یہ ہوتا ہے کہ پودے عمومی انداز میں پیدا کیے جاتے ہیں۔ پھر ان میں جو پودا تندرست ہوتا ہے، اس کو چھانٹ کر نکال لیا جاتا ہے تاکہ اس کو زیادہ اچھی زمین میں نصب کرکے زیادہ اچھے ماحول میں گرو (grow) کرنے کا موقع دیا جائے۔
یہی حیثیت انسان کی نسبت سے موجودہ دنیا کی ہے۔ موجودہ دنیا کی حیثیت انسان کے لیے نرسری (nursery) جیسی ہے۔ یہاں انسان کو پیدا کرکے بسایا جاتا ہے تاکہ ان میں سے جو انسان اپنے کو احسن العمل یعنی زیادہ صحت مند ثابت کرے، اس کو دنیا کی نرسری سے نکال کر آخرت کے ہیبیٹاٹ (habitat) میں نصب کردیا جائے، یعنی ابدی جنت میں۔ گویا کہ موجودہ دنیا کی زندگی نرسری کی زندگی ہے، اور آخرت کے ہیبیٹاٹ کی زندگی ابدی جنت کی زندگی ہے۔ یہ بلاشبہ حیات انسانی کے لیے بہترین اسکیم ہے۔