رب العالمین کا وجود
سائنسی مطالعے (scientific studies)سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کائنات کی ہر چیز ناقابل فہم حد تک عجیب ہے۔ خواہ میکرو ورلڈ (macro world) کا معاملہ ہو یا مائکرو ورلڈ (micro world)کا معاملہ۔ ہر چیز انسان کے لیےمائنڈ باگلنگ (mind-boggling) حد تک عجیب ہے، اس لیےانسانی عقل کے لیے ناقابل فہم بھی۔ انسان پہلے پہاڑ جیسی بڑی بڑی چیزوں کو دیکھ کر حیران ہوتا تھا۔موجودہ دور میں کوانٹم میکانکس (quantum mechanics) کے مطالعہ کے بعد اب سب ایٹمک پارٹکل (subatomic particle) کا معاملہ اس سے بھی عجیب حقیقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔
اس سائنسی مطالعے سے معلوم ہوا کہ خدا کے وجود کو ماننا بظاہر جتنا عجیب ہے۔ اتنا ہی عجیب ہر چیز کو ماننا ہے۔ اس دنیا کی ہر چیز حتی کہ سب ایٹمک پارٹکل بھی مائنڈ باگلنگ حد تک عجیب ہیں۔ خالص منطقی اعتبار سے اس پر غور کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا — اگر ہم خدا کے وجود کو مان لیں تو بقیہ تمام چیزیں قابل توجیہہ (explainable) بن جاتی ہیں، اور اگر ہم خدا کے وجود کو نہ مانیں تو اس دنیا کی ہر چیز ناقابل فہم رہتی ہے۔ حتی کہ سب ایٹمک پارٹکل جیسی چیز بھی جس کو ایک سائنس داں نے امکانی لہریں (waves of probability) کہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو ماننے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح ہم اس کو بھی ماننے پر مجبور ہیں کہ ہم اپنے سے باہر ایک کائنات کو تسلیم کریں۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے، جس کا انکار کسی انسان کے لیے ممکن نہیں۔ قدیم یونان کا ایک فلسفی ایک مرتبہ جاکر درخت کے اوپر بیٹھ گیا۔ کسی نے اس کو درخت کے اوپر دیکھ کر پوچھا کہ تم کون ہو۔ فلسفی نے جواب دیا کہ یہی تو نہیں معلوم کہ میں کون ہوں۔ اگر میں جانتا کہ میں کون ہوں تو میں درخت کے اوپر نہ چڑھتا۔ خدا کے وجود کو ماننا آدمی کو صاحب یقین بنا دیتا ہے، اور خدا کے وجود کا انکار انسان کوفلسفی کی طرح یقین کی کیفیت سے دور کردیتا ہے۔