عیب کا تحفہ

حضرت عمر فاروق ایسے انسان کو بہت پسند کرتے تھے، جو ان کو ان کی غلطی سے آگاہ کرے۔ اس سلسلےمیں ان کا ایک قول ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: رحم اللّٰہ امرأً أہدى إلی عُیوبی (مرآة الزمان فی تواریخ الأعیان، 5/389)۔ یعنی اللہ اس انسان پر رحم کرے، جو مجھ کو میرے عیب کا تحفہ بھیجے۔

یہاں عیب سے مراد غلطی ہے۔ اگر کسی انسان سے کوئی غلطی ہوجائے، اور اس پروہ متنبہ نہ ہوسکے تو ووسرے انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ خیرخواہی کے جذبہ کے ساتھ اس کی غلطی کی نشاندہی کرے۔ بتانے والا خیرخواہی کے ساتھ بتائے، اور سننے والا شکریہ کے ساتھ اس کو قبول کرے۔ جس سماج کے لوگوں میں یہ اسپرٹ ہو، وہ سماج ہمیشہ ترقی کرے گا۔ ایسے سماج کو کوئی چیز ترقی سے روکنے والی نہیں۔ غلطی کی نشاندہی ایک مثبت عمل ہے۔ یہ عمل فطری انداز میں ہونا چاہیے۔اس عمل کی صحیح اسپرٹ یہ ہے کہ نشاندہی کرنے والے کے اندر بڑائی کا جذبہ نہ ہو، اور جس انسان کو اس کی غلطی بتائی گئی ہے، وہ اس کو وقار کا مسئلہ نہ بنائے۔اس اسپرٹ کے ساتھ جب یہ کام کیا جائے تو یقینا ًغلطی کی نشاندہی ایک تحفہ کا معاملہ بن جائے گا۔

غلطی کی نشاندہی تحفہ کیوں ہے۔ وہ آدمی کو اس کی بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا معاملہ ہے۔ غلطی کی نشاندہی کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اپنے بھائی سے یہ کہے کہ تمھاری فلا ں عادت تمھاری ترقی میں رکاوٹ ہے، تم اپنے آپ کو اس عادت سے بچاؤ۔ تاکہ تمھاری ترقی کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو اپنی غلطی دکھائی نہیں دیتی۔ ایسی حالت میں جو انسان اس کی غلطی سے باخبر ہو، اس کو چاہیے کہ وہ خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ یہ بات اس کو بتائے۔ خیر خواہی کی علامت یہ ہے کہ آدمی اس معاملہ میں اتنا زیادہ سنجیدہ ہو کہ وہ اپنے ساتھی کی اصلاح کے لیے دعا کرنے لگے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom