معرفت کی اہمیت

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:عن أبی ہریرة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:کل کلام، أو أمر ذی بال لا یفتح بذکر اللہ، فہو أبتر - أو قال: أقطع -(مسند احمد، حدیث نمبر 8712)۔ یعنی ہر کلام، یا اہم معاملہ، جو اللہ کے ذکر سے نہ شروع کیا جائے، وہ دم بریدہ (بے جڑ)، یا ادھورا ہے۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العالمین اس کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ وہ ہر اعتبار سے اس کائنات کی اصل ہے۔ اس دنیا کی ہر بات اللہ سے شروع ہوتی ہے، اور اسی کی طرف لوٹتی ہے۔ یہی حقیقت قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (57:3)۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اس دنیا کی ہر بات کا سرا (starting point) اللہ رب العالمین ہے۔ اللہ کی ذات کو لے کر مطالعہ کیا جائے تو ہر بات قابل فہم رہے گی، او ر اگر کسی اور بات کو لےکر مطالعہ کیا جائے تو کلام میں وضوح (clarity)ختم ہوجائے گا۔

انسانی علوم کی جتنی شاخیں ہیں، سب کا حاصل حقیقت تک پہنچنا ہے۔ اگر اللہ رب العالمین کی معرفت کو حاصل کرنے کے بعد حقیقتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہر بات قابل دریافت بن جائے گی، اور اگر اللہ رب العالمین کی معرفت حاصل کیے بغیر حقیقت پر کلام کیا جائے تو ایسا طریقہ عملاً اندھیرے میں بھٹکنے کی مانند ہوگا۔ ایسے انسان کا کلام وضوح (clarity) سے خالی ہوگا۔ مذکورہ آیت میں وَہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیم کا مطلب یہ ہے کہ ہر علم کا سرچشمہ اللہ رب العالمین کی ذات ہے۔اللہ کے بغیرہر علم بے علمی بن جاتا ہے۔ اردو شاعر، اکبر الہ آبادی نے جو بات فلسفی کی بارے میں کہی ہے، وہی ہر اس انسان پر صادق آتی ہے، جو اللہ کی معرفت حاصل کیے بغیر کلام کرنا شروع کردے:

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں       ڈور کو سلجھا رہا ہے، اور سرا ملتا نہیں

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom