حق کی دریافت
اسلام کا آغاز ایک دھماکہ خیز دریافت سے ہوتا ہے۔ اس دریافت کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھے کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ امیدرکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔ (5:83-84)۔
یہ دھماکہ خیز تجربہ آدمی کو اپنے خالق کی دریافت تک پہنچاتا ہے۔ اس کے بعد فطری طور پر یہ ہوتا ہے کہ ایسا انسان ایک غور و فکر والا انسان بن جاتا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔ اے ہمارے رب، تو نے جس کو آگ میں ڈالا، اس کو تو نے واقعی رسوا کردیا۔ اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ اے ہمارے رب، ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف پکار رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ، پس ہم ایمان لائے۔ اے ہمارے رب، ہمارے گنا ہوں کو بخش دے اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کردے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر(3:190-193)۔
سچائی کو پانا آدمی کے لیے ایک دھماکہ خیز دریافت کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایسا شخص سنجیدہ غور و فکر کرنے والا بن جاتا ہے۔اس کے بعد اس کے اندر ربانی شخصیت بننا شروع ہوجاتی ہے، جس کا آخری درجہ یہ ہے کہ اس کو ابدی جنت میں داخلہ مل جائے۔