قرآن سے رہنمائی
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔قرآن میں تدبر کا مطلب ہے، قرآن کی آیتوں پر غور کرنا۔ غور کرنے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ قرآن کی آیتوں سے نصیحت لینا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن کی آیتوں کا تطبیقی مفہوم (applied meaning) دریافت کرنا۔ ایک جنرل حکم کو پرسنلائز کرکے سمجھنا۔ اسی کو انسانی زبان میں نصیحت کہاجاتا ہے۔ گویا کہ تدبر کا مطلب ہے ایک اصولی حکم کو عملی نصیحت کے انداز میں ڈھالنا۔
مثلاً موجودہ زمانے کے مسلمان عام طور پر یہ شکایت کرتے ہیں کہ مغربی دنیا ان کی مخالف ہوگئی ہے۔ مخالفت کے اس کلچر کو وہ اسلاموفوبیا کا نام دیتے ہیں۔ اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے جب آپ قرآن پر نظر ڈالیں گے تو آپ کے سامنے یہ آیت آئے گی: وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمٍ (42:30)۔ یعنی اور جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں ہی سے پہنچتی ہے۔
اس آیت پر غور کیا جائے تو اس سے عبارت النص کے درجے میں یہ بات نکلتی ہے کہ ہر مصیبت جس کے لیےتم دوسروں کی شکایت کروگے، وہ تمھارے اپنے ہی کیے کا نتیجہ ہوگی۔اس لیے مصیبت کا سبب اپنے آپ کو سمجھو، نہ کہ دوسروں کو۔ آیت پر مزید غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس چیز کو مسلمان دوسروں کی طرف منسوب کرکےاسلاموفوبیا کہتے ہیں، وہ خود مسلمانوں کے اپنے عمل کا ردّعمل (reaction) ہوتا ہے۔ گویا کہ اسلاموفوبیا اپنی حقیقت کے اعتبار سے ویسٹوفوبیا (Westophobia) ہے۔ یعنی تدبر کا مطلب ہے آیت کا تطبیقی مفہوم دریافت کرنا،اور اس سے عملی نصیحت حاصل کرنا۔