معرفت، نقطۂ آغاز
دینی فکر کے بارے میں کچھ لوگ جوش و خروش کے ساتھ کہتے ہیں:التوحید اولاً۔ یہ بات بظاہر درست ہے۔ لیکن یہ قرآن کے عین مطابق نہیں۔ قرآن کے مطابق، پہلے معرفت آتی ہے، اس کے بعد توحید آتی ہے۔ جیسا کہ حسب ذیل آیتِ قرآنی سے معلوم ہوتا ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ (5:83)۔ یعنی اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔
معرفت سے مراد ہے ذہن کو تیار کرنا۔ جب ذہن تیار ہوجائے، اس کے بعد ہی آدمی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ توحید کو گہرائی کے ساتھ سمجھ سکے۔اسی بات کو ایک صحابی رسول، جندب بن عبد اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:کنا مع النبی صلى اللہ علیہ وسلم ونحن فتیان حزاورة، فتعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، ثم تعلمنا القرآن فازددنا بہ إیمانا (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 61)۔ یعنی ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اور ہم نوجوان تھے۔ ہم نے ایمان سیکھا، قرآن سیکھنے سے پہلے۔ پھر ہم نے قرآن سیکھا، پس ہم نے اس کے ذریعہ سے ایمان میں اضافہ کیا۔
اس روایت میں ایمان سے مراد معرفتِ ایمان ہے۔ معرفت در اصل اس بات کا نام ہے کہ آدمی پہلے اپنے ذہن کو تیار کرے۔ اس کے بعد وہ اس قابل بن جاتا ہے کہ ایمان و اسلام کو بے آمیز صورت میں سمجھ سکے۔ معرفت گویا ذہنی تربیت کی ایک صورت ہے۔ آج کل کی زبان میں اس معاملے کو سمجھنے کے لیے اس کو ڈی کنڈیشننگ کہا جاسکتا ہے۔ اس اعتبار سے معرفت نقطۂ آغاز (starting point) ہے۔ جو لوگ التوحید أولًا کی بات کرتے ہیں، ان کو زیادہ درست طور پر المعرفۃ أولا کہنا چاہیے۔