علمی انداز، صحافتی انداز

قرآن میں ایک معاملے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اللہ اس سے نہیں شرماتا کہ بیان کرے مثال مچھر کی یا اس سے بھی کسی چھوٹی چیز کی۔ پھر جو ایمان والے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وہ حق ہے ان کے رب کی جانب سے۔ اور جو منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس مثال کو بیان کرکے اللہ نے کیا چاہا ہے۔ اللہ اس کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو اس سے راہ دکھاتا ہے۔ اور وہ گمراہ کرتا ہے ان لوگوں کو جو نافرمانی کرنے والے ہیں (2:26)۔

قرآن میں کسی معاملے کو واضح کرنے کے لیے مچھر اور مکڑی کی مثال دی گئی۔ اس کو دیکھ کر منکرین نے اس کا مذاق اڑایا۔ انھوں نے کہا کہ یہ کیسا قرآن ہے، جس میں مچھر اور مکڑی کی مثال دی جاتی ہے۔ اس کے جواب میں کہا گیا کہ یہ مت دیکھو کہ جو مثال دی گئی ہے، وہ کس چیز کی مثال ہے،بلکہ اس میں جو سبق ہے، اس سبق کو دیکھو۔

یہ واقعہ قدیم زمانے کے منکرین کا ہے۔ موجودہ زمانے میں بھی اس واقعہ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں الفاظ بدل گئے ہیں۔ ذہن وہی ہے، البتہ وہ مختلف الفاظ میں ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں آپ کسی سے ایک سچائی کی بات کہیں گے، تو وہ کہے گا کہ آپ کا اسلوب تو صحافتی اسلوب ہے۔ آپ کو چاہیے کہ جو بات کہیں، علمی اسلوب میں کہیں۔ تب آپ کی بات میں وزن ہوگا۔

کوئی بات خواہ وہ بظاہر مذہبی ہو یا سیکولر اس کو بیان کرنے کے لیے بیان کرنے والا ایک اسلوب اختیار کرتا ہے۔ اس اسلوب میں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس میں کتنا وضوح (clarity) ہے، وہ کتنا زیادہ انسانی ذہن کو ایڈریس کرتا ہے، اس میں سبق کا پہلو کتنا ہے۔ کسی بات کے سلسلے میں اصل اہمیت سبق کی ہے، نہ کہ کسی دوسری چیز کی۔اسلوب ہمیشہ اضافی ہوتا ہے، اور معنویت ہمیشہ حقیقی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom