اہل وعیال کا فتنہ
حدیث کی کتابوں میں اہل وعیال کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن میں سے دو روایتیں یہاں نقل کی جاتی ہیں :
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الویل کلّ الویل، لمن ترک عیالہ بخیرٍ، وقدِم علی ربہ بشَرّ(مسند الشہاب القضاعی،جلد 2، صفحہ 24، رقم الحدیث: 304) یعنی کامل تباہی وبربادی ہے اُس شخص کے لیے جس نے (موت کے وقت) اپنے عیال کو اچھی حالت میں چھوڑا، اور خود برے حال میں اپنے رب کے پاس پہنچا۔
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : یُؤتیٰ برجلٍ یومَ القیامۃ فیقال: أکلَ عیالہ حسناتہ (تفسیر القرطبی، جلد 18 صفحہ 143)یعنی قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا اوراُس سے کہا جائے گا کہ تمھارے اہل وعیال تمھاری نیکیاں کھا گئے۔
قدیم زمانے میں صرف کچھ افراد اِس قسم کے ہوتے تھے، لیکن موجودہ زمانے میں اِس پہلو سے بگاڑ کا یہ حال ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے جیسے تمام لوگ اِس تباہ کن کم زوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ اِس کم زوری کا سبب حبّ ِعیال ہے۔ بظاہر لوگ خدا کا اور اسلام کا نام لیتے ہیں، لیکن اُن کی محبتیں صرف اپنے اہل وعیال سے ہوتی ہیں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن کاسب سے بڑا کنسرن اُن کے اہل وعیال ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنے مال و اسباب کو اپنے اہل وعیال کے لیے وقف کیے رہتے ہیں۔ موت ایسے لوگوں کے لیے ایک جبری انقطاع(compulsive detachment) کے طورپر آتی ہے۔ ایسے لوگ جب موت کے بعد خدا کے پاس پہنچتے ہیں تو وہاں کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔
یہ بلاشبہہ سب سے بڑی محرومی ہے۔ یہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو تباہ کرنا ہے (أذہب آخرتہ بدنیا غیرہ) مزید یہ کہ یہ اہل وعیال جن کو آدمی اپنا سب کچھ دے دیتا ہے، وہ موت کے بعد اُس سے اِس طرح جدا ہوجاتے ہیں کہ دوبارہ وہ اُس کو کبھی نہیں ملتے۔