سائنس سے معرفت تک
سائنس کیا ہے۔ سائنس دراصل منظم علم کا نام ہے۔ سائنس سے مراد وہ علم ہے جس میں کائنات کا مطالعہ موضوعی طورپر ثابت شدہ اصولوں کی روشنی میں کیا جائے:
Science: The systematized knowledge of nature and the physical world.
کائنات کی حقیقت کے بارے میں انسان ہمیشہ غور وفکر کرتا رہا ہے۔ سب سے پہلے روایتی عقائد کی روشنی میں، اس کے بعد فلسفیانہ طرزِ فکر کی روشنی میں، اور آخر میں سائنس کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں۔
طبیعیاتی سائنس کے میدان میں پچھلی چار صدیوں میں تین انقلابی تبدیلیاں پیش آئی ہیں۔ اوّل، برٹش سائنس داں نیوٹن کا مفروضہ کہ کائنات کی بنیادی تعمیری اینٹ مادّہ ہے۔ اِس کے بعد بیسویں صدی کے آغاز میں جرمن سائنس داں آئن سٹائن کا نظریہ سامنے آیا کہ کائنات کی بنیادی تعمیری اینٹ توانائی ہے۔ اور اب آخر میں ہم امریکن سائنس داں ڈیوڈ بام کے نظریاتی دور میں ہیں، جب کہ سائنس دانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد یہ مان رہی ہے کہ کائنات کی بنیادی تعمیری اینٹ شعور ہے۔ یہ تبدیلیاں لازمی طورپر ایک نئے فلسفے کو جنم دیتی ہیں، جب کہ فلسفہ مادّیت سے گزر کر روحانیت تک پہنچ گیا ہے:
In the realm of the physical science, we have had three major paradigm shifts in the last four centuries. First, we had the Newtonian hypothesis that matter was the basic building block of the universe. In the early twentieth century, this gave way to the Einsteinian paradigm of energy being the basic building block. And the latest is the David Bohm era when more and more scientists are accepting consciousness to be the basic building block. These shifts have had inevitable consequences for the New Age philosophy, which has moved away from the philosophy of crass materialism to that of spirituality.
وہ دور جس کو سائنسی دور کہا جاتا ہے، اُس کا آغاز تقریباً پانچ سوسال پہلے مغربی یورپ میں ہوا۔ دھیرے دھیرے عمومی طورپر یہ تاثر بن گیاکہ سائنس حقیقت کو جاننے کا سبب سے اعلیٰ ذریعہ ہے۔ جو بات سائنس سے ثابت ہوجائے، وہی حقیقت ہے، جو بات سائنسی اصولوں کے ذریعے ثابت نہ ہو، وہ حقیقت بھی نہیں۔
ابتدائی صدیوں میں سائنس خالص مادّی علم کے ہم معنی بن گئی۔ چوں کہ مذہبی حقیقتیں مادی معیارِ استدلال پر بظاہر ثابت نہیں ہوتی تھیں، اِس لیے مذہبی حقیقتوں کو غیر علمی قرار دے دیا گیا۔ لیکن علم کا دریا مسلسل آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب کہ خود سائنس مادی علم کے بجائے عملاً غیرمادّی علم کے ہم معنی بن گئی۔
پچھلی صدیوں کی علمی تاریخ بتاتی ہے کہ سائنس کے ارتقا کے ذریعے پہلی بار استدلال کی ایک ایسی علمی بنیاد وجود میں آئی جو عالمی طورپر مسلّمہ علمی استدلال کی حیثیت رکھتی تھی، پھر اِس میں مزید ارتقا ہوا، اور آخر کار سائنس ایک ایسا علم بن گیا جو مسلّمہ عقلی بنیاد پر یہ ثابت کررہا تھا کہ کائنات ایک بالاترشعور کی کارفرمائی ہے۔ ایک سائنس داں نے کہا کہ— کائنات کا مادّہ ایک ذہن ہے:
The stuff of the world is mind-stuff. (Eddington)
جب یہ بات ثابت ہوجائے کہ کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایک عظیم ذہن (mind) کی کار فرمائی ہے۔ کائنات کے اندر جو معنویت ہے، جو منصوبہ بندی ہے، جو بے نقص ڈزائن ہے، وہ حیرت انگیز طورپر ایک اعلیٰ ذہن کے وجود کو بتاتاہے۔ کائنات میں اَن گنت چیزیں ہیں۔ لیکن ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ کائنات میں حسابی درستگی اتنے زیادہ اعلیٰ معیار پر پائی جاتی ہے کہ ایک سائنس داں نے کہا کہ کائنات ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical mind) کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
جب علم کا دریا یہاں تک پہنچ جائے تو اس کے بعد صرف یہ کام باقی رہ جاتا ہے کہ اِس دریافت کردہ شعور یا اس ذہن کو مذہبی اصطلاح کے مطابق، خدا (God) کا نام دے دیا جائے۔