سیلف میڈ مین
آزادی (1947) سے پہلے کا واقعہ ہے۔ مشرقی یوپی میں ایک زمین دار خاندان تھا۔ اِس خاندان کے ایک صاحب شکار کے شوقین تھے۔ اُن کے پاس لائسنس یافتہ گن تھی۔ پاس کے جنگلوں میں وہ اکثر ہرن، وغیرہ کا شکار کرنے کے لیے جایا کرتے تھے۔ جب وہ شکار کے لیے جاتے تو خاندان کے کئی لوگ اُن کے ساتھ ہوتے تھے، مگر ایک نوجوان کو وہ اپنے ساتھ نہیں لے جاتے تھے۔ یہ نوجوان بچپن میں یتیم ہوگیا تھا۔ وہ اُس نوجوان سے کہتے کہ تم منحوس ہو، تم ساتھ چلوگے تو کوئی شکار نہیں ملے گا۔
یہ ’’منحوس نوجوان‘‘بعد کو ایک خوش قسمت نوجوان بن گیا۔ اس کے حالات اس کو بزنس کی طرف لے گئے۔ اُس نے غیر معمولی محنت کی۔ اُس کے کاروبار میں بہت ترقی ہوئی، یہاں تک کہ پورے خاندان میں وہ سب سے زیادہ دولت مند شخص بن گیا۔ اب وہ خاندان کا ایک باعزت فرد بن گیا۔ ہر طرف اس کی تعریف ہونے لگی۔ بعد کے زمانے میں خاندان کے ایک صاحب نے اس کو ایک عید کارڈ بھیجا۔ اِس عید کارڈ کے اوپر لکھا ہوا تھا— سیلف میڈ مین(self-made man) کے نام جو قطب مینار کی بلندیوں کو بھی پار کرسکتا ہے۔
اِس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہر انسان کے اندر ایک عظیم مستقبل چھپا ہوا ہوتا ہے۔ کوئی آدمی اپنی ابتدائی عمر میں بظاہر معمولی دکھائی دے تو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ فی الواقع وہ ایک معمولی آدمی ہے، عین ممکن ہے کہ وہ ایک غیر معمولی انسان ہو، یعنی اپنی ابتدائی عمر میں وہ بالقوۃ طورپر غیر معمولی انسان ہو، اور اپنی بعد کی عمر میں وہ بالفعل طورپر ایک غیر معمولی انسان بن جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کے ظاہر کو دیکھ کر اُس کو حقیر سمجھنا خدا کی قدرت کا کم تر اندازہ (underestimation) کرنا ہے۔ اِس طرح کا کم تر اندازہ انسانیت کے خلاف بھی ہے اور ایمان کے خلاف بھی۔