سوال و جواب
سوال
9 مئی 2009 کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں خدا کے وجود کے موضوع پر انگریزی زبان میں آپ کی ایک تقریر تھی۔ میں اِس تقریر میں شروع سے آخر تک شریک رہا۔میں نے دیکھا کہ سامعین نے خدا کے وجود پر دئے گئے سائنسی دلائل سے پورا اتفاق کیا۔تاہم ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سینئر ہندو خاتون نے تقریر کے بعد مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مولانا صاحب کی بات سے مجھ کو پورا اتفاق ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ خدا کے وجود پر سائنسی دلائل کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ خدا تو ہمارے اندر موجود ہے۔ براہِ کرام، اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں (محمد ذکوان ندوی، نئی دہلی)
جواب
مذکورہ خاتون نے جو بات کہی، وہ کوئی سادہ بات نہیں تھی۔ اصل یہ ہے کہ خدا کے بارے میں دو الگ الگ تصور (concept) پائے جاتے ہیں۔ ایک ہے، توحید (monotheism)، یعنی خدا کو ایک شخصی وجود (personal God) کے طور پر ماننا۔ اور دوسرا ہے تصورِ وحدتِ وجود(monism)، یعنی خدا کو غیرشخصی ہستی(impersonal God) کے طورپر ماننا۔ یہ وہی چیز ہے جس کو کچھ دوسرے لوگ داخل میں بسا ہوا خدا (indwelling god) کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔
وحدتِ وجود کو سنسکرت میں اُدوئت واد کہا جاتا ہے۔ اِس تصور کے مطابق، خدا صرف ایک اسپرٹ ہے، جس طرح قوتِ کشش (gravity) ایک اسپرٹ ہے۔ وحدتِ وجود کے نظریے کو اگر چہ مسلم صوفیوں نے اختیار کرلیا، لیکن میرے نزدیک وہ سرتاسر ایک بے اصل (baseless) نظریہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وحدتِ وجود کوئی مذہبی تصور نہیں، وہ صرف ایک فلسفیانہ تصور ہے جس کو مذہب میں شامل کرلیاگیا ہے۔ اسی بنا پر ہندو مذہب میں اِس اعتبار سے سخت تضاد پیدا ہوگیا ہے۔ ایک طرف وہ نِراکار خدا (formless god) کو مانتے ہیں اور دوسری طرف وہ دیوتاؤں کی مورتی بنا کر اُس کو آکار(form) کا درجہ دئے ہوئے ہیں۔
موجودہ زمانے میں سائنس نے کائنات کا جو مطالعہ کیا ہے، اُس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے انتظام میں ایک برتر ذہن (superior mind) کام کررہا ہے، جس کو ایک سائنس داں نے شعوری وجود (conscious being) کا نام دیا ہے۔ اِس طرح سائنس کی دریافتوں نے وحدتِ وجود کے تحت مفروضہ تصورِ خدا کی مکمل طور پر تردید کردی ہے، جس طرح اُس نے زمین مرکزی (geo-centric) شمسی نظام کی تردید کردی تھی۔ اِس کے برعکس، سائنس کی دریافتیں پورے معنوں میں عقیدۂ توحید کے تحت بیان کردہ تصورِ خدا کی علمی تصدیق بن گئی ہیں۔
سوال
موجودہ زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ اپنے اپنے انداز میں اسلام کی تعبیرات (interpretations) پیش کررہے ہیں۔ اِس طرح اسلام کے بہت سے تصورات بن گئے ہیں۔ اِس صورتِ حال کو دیکھ کر عام انسان سخت پریشان ہے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس کے تصورِ اسلام کو درست سمجھے، اور کس کے تصورِ اسلام کو نا درست۔ براہِ کرم، اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں (ایک قاری الرسالہ، سری نگر، کشمیر)
جواب
یہ سوال عام طورپر وہ لوگ کرتے ہیں جن کا مطالعہ اسلام کے بارے میں بہت کم ہوتا ہے۔ وہ مختلف لوگوں کی بات سنتے ہیں اور مختلف قسم کی کتاب اپنی مادری زبان میں پڑھتے ہیں۔اُن کے اندر تجزیہ اور محاکمہ (analysis) کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اپنی اِس کمی کی بنا پر وہ اسلام کے بارے میں کنفیوژن (confusion) کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اِس قسم کے لوگوں کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے— یا تو وہ اپنی دوسری مصروفیتوں کو چھوڑ کر عربی زبان سیکھیں اور پھر براہِ راست طورپر اسلام کا تفصیلی مطالعہ کریں۔ اِس گہرے مطالعے کے بعد وہ جس نتیجے پر پہنچیں، اُس کو اختیار کرلیں - لیکن اگر وہ اِس قسم کے تفصیلی مطالعے کا موقع نہ رکھتے ہوں تو اُن کے لیے دوسرا انتخاب صرف یہ ہے کہ وہ کسی عالم کو اپنا رہنما بنا لیں۔ مختلف علماء میں سے جس عالم کے علم اور اخلاص پر اُن کو اعتماد ہو، وہ اُس کو پکڑ لیں۔ وہ اس کی کتابوں کو پڑھیں اور جہاں ضرورت ہو، اُس سے رجوع کریں۔ اِن دو کے سوا جو طریقہ وہ اختیار کریں گے، وہ صرف اُن کی گم راہی کو بڑھائے گا، وہ اُن کو ہدایت تک پہنچانے والا نہیں۔
عجیب بات ہے کہ اکثر لوگ اِس کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ وہ مختلف علماء اور غیر علماء سے اپنے سوالات پر گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ چوں کہ اُن کے اندر محاکمہ کی صلاحیت نہیں ہوتی، اِس لیے وہ ہمیشہ خیالات کے جنگل میں جیتے ہیں اور ہمیشہ کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ جو آدمی کنفیوژن کا شکا رہو، وہ ہمیشہ بے یقینی کا شکار رہے گا، اور بے یقینی آدمی کو اِس سے محروم کردیتی ہے کہ وہ سچائی کو دریافت کرے اور اُس پر یقین کے ساتھ کھڑا ہوجائے۔