دعوت اور عبادت
قرآن کی سورہ نمبر 73 میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: إنّ لک فی النہار سبحاً طویلاً(المزّمل :7)۔ اِس آیت کا ترجمہ شاہ عبد القادر دہلوی نے اِس طرح کیا ہے— البتہ تجھ کو دن میں شغل رہتا ہے لمبا۔ اِس آیت میں ’سَبْح‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سبح کے لیے عربی تفسیروں میں تقلّب اوراعمال اور اشغال جیسے الفاظ آئے ہیں، یعنی سرگرمیاں (activities)۔ اب سوال یہ ہے کہ دن کے اوقات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگرمیاں کیا ہوتی تھیں۔ یہ سرگرمیاں یقینی طور پر دعوت الی اللہ کے لیے تھیں، نہ کہ کسی اور کام کے لیے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ایمان کے لیے ’باخع‘ (الشعراء:3) بن گئے تھے۔ اِسی طرح قرآن میں آیا ہے کہ آپ، لوگوں کے ایمان کے لیے متاسّف رہتے تھے (الکہف:6)، یعنی آپ درد وغم کی حد تک اِس بات کے حریص بنے ہوئے تھے کہ لوگ ایمان لائیں۔اِسی بات کو دوسرے مقام پر حضرت نوح کے حوالے سے اِس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’نوح نے کہا کہ اے میرے رب، میں نے رات اور دن اپنی قوم کو دعوت دی‘‘ (نوح: 5)۔
اصل یہ ہے کہ ایمان کے تقاضے بنیادی طورپر دو ہیں— عبادت، اور دعوت۔ یہ دونوں تقاضے مومن کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ مومن کی زندگی میں دونوں تقاضے مسلسل طورپر جاری رہتے ہیں، رات کے اوقات میں بھی اوردن کے اوقات میں بھی۔لیکن عمومی اعتبار سے اُن کے درمیان ایک تقسیم بن جاتی ہے۔ دن کا زیادہ وقت دعوت میں گزرتا ہے، اور رات کا زیادہ وقت عبادت میں۔ قرآن کی مذکورہ آیت میں اِسی حقیقت کو بیان کیاگیا ہے۔ پیغمبر کی زندگی کا یہ پہلو تمام اہلِ ایمان کے لیے ایک نمونہ ہے۔ اُنھیں بھی یہی کرنا ہے کہ وہ اپنے دن کے اوقات کا زیادہ سے زیادہ حصہ دعوت اور اصلاح کے کام میں گزاردیں، اور رات کے وقت ضرورت کے مطابق آرام کے بعد ذکر اور عبادت اور تلاوتِ قرآن میں مصروف رہیں۔