سرّی منافقت، جہری منافقت
قدیم زمانہ سادگی کا زمانہ ـتھا۔ قدیم زمانے میں ہر چیز سادہ ہوا کرتی تھی۔ سادہ انسان ہر بات کو جہری (open) انداز میں کہنا جانتاتھا۔ ایسے ماحول میں جو منافقت پیدا ہوئی، وہ بھی جہری منافقت تھی۔ قدیم زمانے کے لوگ اپنی کم زوریوں کو چھپانے کا فن نہیں جانتے تھے۔ وہ عام طورپر جہری انداز میں کلام کرتے تھے۔ قدیم زمانے کی منافقت بھی ایک معلوم واقعہ ہوتی تھی اور غیر منافقت بھی ایک معلوم واقعہ۔موجودہ زمانے کے انسان کو مہذب (civilized) انسان کہاجاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں تکلف اور تصنّع ایک آرٹ بن چکا ہے۔ موجودہ زمانے میں برائیوں کو بھی خوش نما الفاظ میں بیان کیا جاتاہے۔ اِس زمانی صورتِ حال نے منافقت کو بھی ایک نیا انداز عطا کیا ہے۔ آج کے لوگ اِس بات کے ماہر ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بات کو خوش نما الفاظ میں چھپا سکیں۔ قدیم زمانہ اگر جہری منافقت کا زمانہ تھا تو موجودہ زمانہ سری منافقت کا زمانہ ہے۔
منافقت کوئی پُر اسرار (mysterious) چیز نہیں۔ منافقت یہ ہے کہ آدمی اپنی برائی کو خوش نما الفاظ کے پردے میں چھپائے ہوئے ہو۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ ایک ایسے کام کریڈٹ لینا چاہے جس کو اُس نے انجام ہی نہیں دیا(آل عمران:188) یعنی وہ اپنے عمل میں کچھ ہو اور الفاظ میں بناوٹی طورپر وہ اپنے آپ کو کچھ اور ظاہر کرے۔ مثلاً ایک محبوب شخصیت جو صرف شاعراور خطیب اور انشا پرداز ہو، اُس کو مفکر اسلام کا ٹائٹل دیا جائے، مسلم عوام کی اصلاح کا کام کیا جائے اور اُس کو پیغمبرانہ دعوت کہا جائے، ایک جزئی نوعیت کا کام کیا جائے اور اُس کو امر ِ جامع بتایا جائے، سیاسی لیڈری والا کام کیا جائے اور اُس کو ملی خدمت قرار دیا جائے، روایتی اسلوب میں کام کیا جائے اور اس کو عصری اسلوب قرار دیا جائے، قدیم تقاضوں کے تحت کام کیا جائے اور اُس کو جدید تقاضوں کی تکمیل بتایا جائے، تحفظِ اسلام کے نام پر عوامی بھیڑ اکھٹا کی جائے اور اس کو احیائِ اسلام کا درجہ دیا جائے، وغیرہ۔
آدمی جو کام کررہا ہے، اگر وہ اُسی کا نام لے تو یہ منافقت نہ ہوگی۔ لیکن یہ بلا شبہہ منافقت ہے کہ آدمی حقیقت میں ایک کام کرے اور اپنی زبان سے وہ اُس کو کوئی اور کام بتائے۔