ہدایت کس کے لیے
قرآن کی سورہ نمبر 28 میں انسانی ہدایت کا قانون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إنّک لا تہدی من أحببت ولٰکن اللہ یہدی مَن یشاء، وہو أعلم بالمہتدین (القصص:56) یعنی تم جس کو چاہو، اُس کو تم ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو وہ ہدایت دیتا ہے۔ اور وہی خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِس دنیا میں صرف اُس شخص کو ہدایت ملتی ہے جو خدا کے قانونِ ہدایت کے مطابق، اِس کا طالب ہو۔ اور پھر صحیح طریقے کے مطابق، اس کو پانے کی کوشش کرے۔ اِس مقرر کورس کے اختیار کیے بغیر امتحان کی اِس دنیا میں کسی کو ہدایت نہیں مل سکتی۔
یہی بات ایک حدیثِ قدسی میں اِن الفاظ میں بتائی گئی ہے: یا عبادی، کلّکم ضال إلا مَن ہدیتُہ، فاستہدونی أہدکم (صحیح مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والأدب، باب تحریم الظّلم)۔ یعنی اے میرے بندو، سن لوکہ تم سب بھٹکے ہوئے ہو، سوا اُس شخص کے جس کو میں ہدایت دوں۔ پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تم کوہدایت دوں گا۔ اِس حدیث قدسی میں بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ اِس دنیا میں ہدایت کو پانا صرف اُس شخص کے لیے ممکن ہے جو خالق کی طرف سے مقرر کیے ہوئے طریقے کے مطابق، اُس کا طالب بنے۔ اِس کے سوا کوئی اور راستہ ہدایت کی منزل تک پہنچانے والا نہیں۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا دماغ دیاہے جو اپنے اندر غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِنھیں میں سے ایک صلاحیت وہ ہے جس کو حافظہ (memory) کہاجاتا ہے۔ حافظے کے اندر لامحدود طورپر یہ صلاحیت ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی یا پڑھی ہوئی چیز کو اپنے اندر محفوظ کرلے۔ کوئی بھی چیز جو ایک بار انسان کے حافظے میں پڑ گئی، وہ پھر کبھی اُس سے محو نہیں ہوتی، خواہ آدمی بہ ظاہر اس کو بھول گیا ہو۔ ذہن میں چیزوں کے محفوظ ہونے کا یہ معاملہ انسان کے بچپن سے شروع ہوتا ہے اور اس کی آخری عمر تک بلا انقطاع جاری رہتاہے۔
اِس حافظے کی بنا پر انسان کا دماغ افکار کا جنگل (jungle of thoughts) بن جاتا ہے۔ ہدایت کا تعلق صحیح طرزِ فکر سے ہے، نہ کہ افکار کے اِس جنگل میں گم ہوجانے سے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے اندر صحیح طرزِ فکر (right-thinking) کیسے پیداکرے۔ اِس کا طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ انسان اپنے اندر وہ صفت پیدا کرے جس کو آرٹ آف سارٹنگ آؤٹ (art of sorting out) کہا جاتا ہے، یعنی مختلف قسم کی معلومات کو چھانٹ کر ایک دوسرے سے الگ کرنا،صحیح اور غلط میں فرق کرنا، متعلق (relevant) اور غیر متعلق(irrelevant) کو ایک دوسرے سے الگ کرنا، کسی چیز کو غلط زاویہ (wrong angle) سے نہ دیکھ کر اس کو صحیح زاویہ (right angle) سے دیکھنا۔ منطقی (logical) اور غیرمنطقی (illogical) بات کے درمیان تمیز کرنا، وغیرہ۔
معلومات کے درمیان چھاٹنے (sorting-out) کا یہ عمل کسی آدمی کے لیے اِس بات کی ضمانت ہے کہ وہ غلط رائے قائم کرنے سے بچے اور درست رائے تک پہنچ جائے۔ یہ مسئلہ ہر عورت اور ہر مرد کا مسئلہ ہے۔ ہر عورت اور مرد کو لازمی طورپر اپنے ذہن میں یہ عمل (process) جاری کرنا ہے۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ معلومات کے جنگل میں رہتے ہوئے صحیح طرزِ فکر کو اختیار کرسکے۔
افکار کو سارٹ آؤٹ (sortout) کرنے کے اِس عمل کا دوسرا نام ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) ہے۔ ڈی کنڈیشننگ کے انتہائی سنجیدہ عمل کے ذریعے ہی اس کو انجام دیا جاسکتا ہے۔ بنیادی طورپر اِس عمل کے دو طریقے ہیں، یعنی یا تو خود اپنی کوشش سے اس کو انجام دینا، یا دوسروں کو اِس کا موقع دینا کہ وہ اِس عمل میں آپ کی مدد کریں۔ پہلی قسم کا طریقہ محاسبہ (introspection) کا طریقہ ہے۔ اور دوسری قسم کے طریقے کو تنقید (criticism) کہا جاسکتا ہے۔
یہ دونوں قسم کا عمل اُسی وقت مفید ہوسکتا ہے، جب کہ اُس کو پوری شدت کے ساتھ اور بے رحمانہ اندازمیں کیاجائے۔ اِس بے رحمانہ محاسبہ کو دوسرے لفظوں میں، داخلی ہیمرنگ (internal hammering) کہاجاسکتا ہے۔ اور اِس بے رحمانہ تنقید کو دوسرے لفظوں میں، خارجی ہیمرنگ (external hammering) کہا جاسکتا ہے۔ جو عورت اور مرد اپنی حقیقی اصلاح کا طالب ہو، اس کے لیے اِس بے رحمانہ عمل کے سوا کوئی اور انتخاب نہیں۔ اِس معاملے میں تیسرے انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ آدمی افکار کے جنگل میں بھٹکتا رہے اور پھر اسی حال میں مرجائے۔ اِس ہیمرنگ کو قبول کرنا اپنے ساتھ سب سے بڑی خیر خواہی ہے، اور اس ہیمرنگ کو قبول نہ کرنا اپنے ساتھ سب سے بڑی دشمنی۔
خالقِ فطرت نے موجودہ دنیا میں ہماری مدد کے لیے ایک انتظام یہ کیا ہے کہ ہر غیر مرئی (invisible) چیز کے لیے مرئی (visible) نمونے قائم کردیے ہیں۔ اِس معاملے کا ایک اظہار، خالق نے چیونٹی (ant) کی صورت میں کیا ہے۔ چیونٹی بہ ظاہر ایک بہت چھو ٹی مخلوق ہے، لیکن وہ ہمارے لیے ایک نہایت سبق آموز عمل کرتی ہے۔ چیونٹی کا معاملہ یہ ہے کہ شکر (sugar) اس کی خوراک ہے، لیکن نمک (salt) اس کی خوراک نہیں۔ اگر آپ ایسا کریں کہ نمک کے ڈھیر کے ساتھ شکر ملا کر رکھ دیں، تو اگر چہ بہ ظاہر نمک اور شکر دونوں کا رنگ ایک ہوگا، لیکن چیونٹی جب وہاں آئے گی تو وہ اِس ڈھیر میں سے صرف شکر کو لے گی اور نمک کو وہ پوری طرح چھوڑ دے گی۔ چیونٹی یہ عمل بے خطا انداز میں کرتی ہے۔ چیونٹی کبھی اِس معاملے میں ایسا نہیں کرتی کہ وہ نمک کو لے لے اور شکر کو چھوڑ دے، یا ان کے درمیان تفریق کیے بغیر ایسا کرے کہ وہ کچھ مقدار نمک سے لے اور کچھ مقدار شکرسے لے لے۔
یہ چیونٹی کی مثال ہے۔ انسان کو بھی یہی نمونہ اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی حساسیت (sensitivity) کو جگائے، وہ اپنے شعور کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنے لگے۔ وہ ایسا کرے کہ جو چیز درست ہے، اُس کو لے اور جو چیز درست نہیں ہے، اس کو چھانٹ کر الگ کردے۔ کسی عورت یا مرد کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز صحیح طرزِ فکر (right thinking) ہے اور مذکورہ عمل کو انجام دیے بغیر کوئی شخص صحیح طرزِ فکر کا حامل نہیں بن سکتا۔ قرآن کے بیان کے مطابق، صحیح طرزِ فکر کے حامل انسان کے پاس ایک روشنی ہوتی ہے جو ہروقت اس کی رہ نمائی کرتی رہتی ہے اور جس کے پاس صحیح طرز ِ فکر نہ ہو، وہ گویا کہ ایک ایسے اندھیرے میں بھٹک رہا ہے، جس سے نکلنا اس کے لیے ممکن نہیں (الأنعام: 123)۔