جہاد اسلام میں
جہادکے لفظی معنیٰ پُر امن جدوجہد(peaceful struggle) کے ہیں۔ یہ پر امن جدوجہد دعوت الی اللہ کے ذریعے ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وجاہدہم بہ جہاداً کبیراً (الفرقان: 52) یعنی تم اُن سے قرآن کے ذریعے جہاد کرو، بڑا جہاد۔ قرآن کے ذریعے جہاد یقینی طورپر قتال کے معنیٰ میں نہیں ہوسکتا۔ قرآن ایک دعوتی کتاب ہے۔ قرآن کے ذریعے جہاد کا مطلب ہے— پُرامن دعوتی جہدوجہد۔ جہاد اپنے ابتدائی مفہوم کے اعتبار سے یہی ہے کہ قرآن کے پیغام کو عمومی طورپر پھیلانے کے لیے پر امن کوشش کی جائے۔ یہی وہ جہاد ہے جس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ وہ قیامت تک مسلسل طورپر جاری رہے گا (ابوداؤد، رقم الحدیث 2532)
جہاد اپنے توسیعی مفہوم میں قتال (war) کے معنی میں آتاہے۔ اِس دوسرے معنی میں جب جہاد کا لفظ آئے تو اس سے مراد وقتی نوعیت کا مدافعانہ قتال ہوگا۔ جہاد بہ معنی قتال کو ایک مسلسل عمل کے طورپر نہیں لیا جاسکتا، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ رسول اللہ کی زندگی میں بار بار ایسے مواقع آئے، جب کہ فریقِ ثانی آپ کو قتال میں الجھانا چاہتا تھا، مگر آپ نے ہر ایسے موقع پر قتال سے اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ مثلاً ہجرت کے وقت، خندق کے وقت، حدیبیہ کے وقت، وغیرہ۔
مذکورہ اصول کی روشنی میں احادیثِ جہاد کو سمجھا جاسکتا ہے۔ قرآن اور حدیث میں جہاد کا لفظ جہاں دعوت کے لیے استعمال ہوا ہے، اگر وہاں جنگ کے ساتھ تخصیص کا قرینہ موجود نہ ہو تو اس کو پر امن دعوتی عمل کے معنی میں لیا جائے گا، جس کے لیے یہ مطلوب ہے کہ وہ مسلسل طورپر امت کے اندر جاری رہے۔ اور جہاں اُس سے قتال کی تخصیص ثابت ہوتی ہو، وہاں اُس سے مراد وقتی نوعیت کی دفاعی جنگ ہوگی، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: اعلموا أن الجنّۃ تحت ظلال السیوف (صحیح البخاری، کتاب الجہاد)۔ جہاد بہ معنی قتال اگر مستقل طورپر مطلوب ہوتا تو اس کے بارے میں حدیث میں یہ الفاظ نہ ہوتے: لا تتمنّوا لقاء العدوّ، وسَلوا اللہ العافیۃ(صحیح البخاری، کتاب الجہاد) یعنی تم دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو، اور اللہ سے عافیت مانگو۔