آیت یا معجزہ

خدا کے پیغمبروں نے اپنے معاصرین کو جو نشانیاں دکھائیں، اُن کو عام طور پر معجزہ کہاجاتا ہے، مگر یہ اسلامی تعبیر نہیں۔ اِن پیغمبرانہ واقعات کو قرآن اور حدیث میں معجزہ (miracle) کا نام نہیں دیا گیا ہے، بلکہ ان کو آیت (sign) کہا گیا ہے۔ معجزہ (miracle) کہنا گویا کہ ایسے کسی واقعے کو پیغمبرانہ ظاہرہ (prophetic phenomenon) قرار دینا ہے، جب کہ ایسے کسی واقعے کو آیت (sign) کہنا اس کو فطری ظاہرہ (natural phenomenon) بتانا ہے۔

حضرت موسیٰ ایک پیغمبر تھے۔ وہ قدیم مصر میں پیدا ہوئے۔ پندرھویں صدی قبل مسیح میں ان کا مقابلہ اُس وقت کے مصری بادشاہ فرعون (Pharaoh II) سے ہوا۔ بادشاہ کے مطالبے پر حضرت موسیٰ نے اپنی ایک نشانی دکھائی۔ وہ نشانی یہ تھی کہ انھوں نے اپنا عصا زمین پر ڈالا، تو وہ سانپ بن کر زمین پر چلنے لگا۔ اِس واقعے کو بہت سے لوگوں نے دیکھا۔ کچھ لوگ اس سے متاثر ہوئے اور وہ حضرت موسیٰ کے دین پر ایمان لائے۔

یہ واقعہ صرف حضرت موسیٰ کے معاصرین (contemporaries) کے لیے نہ تھا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک چشم کُشا نشانی (eye-opening sign) کی حیثیت رکھتا تھا۔ ہر زمانے کے لوگوں کے لیے اس کے اندر ایک عظیم سبق تھا۔ حضرت موسی ٰ نے دراصل لوگوں کو خدا کے ایک ابدی اور عمومی قانون کا مشاہدہ کرایا۔ یہ قانون کنورژن کا قانون (law of conversion) تھا۔ حضرت موسیٰ نے خدا کی مدد سے لکڑی کے ایک ٹکڑے کو سانپ کی شکل میں تبدیل کرکے دکھایا کہ اِسی طرح عالمِ فطرت کی ہر چیز تبدیلی (conversion) کے ذریعے ایک صورت سے دوسری صورت اختیار کررہی ہے۔ حضرت موسیٰ نے لوگوں کو جس واقعے کا مشاہدہ کرایا، وہ دراصل کنورژن کا یہی عمومی قانون تھا:

Conversion: The act of changing something from one form to another form.

کنورژن کے اِس فطری اصول کا حوالہ خود قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 52 میں بتایا گیا ہے کہ اِس دنیا میں غیرِ شی ٔ (nothing) شی ٔ (thing) میں تبدیل ہو رہی ہے (الطّور: 35)۔ اِسی طرح قرآن کی سورہ نمبر 76میں بتایاگیا ہے کہ یہاں غیر مذکور (non-being) مذکور (being) میں تبدیل ہورہا ہے (الدّہر: 1)، وغیرہ۔

حضرت موسیٰ سولھویں صدی قبل مسیح میں پیدا ہوئے اور پندرھویں صدی قبل مسیح میں ان کی وفات ہوئی۔ یہ زمانہ جدید سائنس سے پہلے کا زمانہ (pre-scientific period) تھا۔ اُس وقت اِس قسم کی نشانی صرف خدا کی خصوصی مداخلت (intervention) کے ذریعے ہی لوگوں کو دکھائی جاسکتی تھی۔ جدید سائنس کے ظہور نے اِس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ فطرت کے اِس واقعے کو خودانسانی علم کے ذریعے دریافت کیا جاسکے۔ مستقبل میں پیش آنے والے اِس سائنسی انقلاب کو پیشگی طورپر قرآن میں بتا دیاگیا تھا (حٰمٓ السّجدۃ: 53)۔

کائنات میں مختلف اور متنوع قسم کی چیزیں پائی جاتی ہیں۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ تمام چیزیں کنورژن کے اصول پر وجود میں آئی ہیں، یعنی ایک چیز کا بدل کر دوسری چیز کی صورت اختیار کرلینا۔ حضرت موسیٰ کے زمانے میں یہ ہوا کہ ایک چیز جو سانپ نہیں تھی، وہ سانپ بن گئی۔ یعنی نا سرپنٹ (non-serpent) سرپنٹ میں تبدیل ہوگیا۔ یہی معاملہ اِس دنیا میں ہر چیز کا ہے۔ یہاں غیر آب (non-water) آب (water) میں تبدیل ہورہا ہے۔اِسی طرح غیر ِ درخت (non-tree) درخت میں تبدیل ہورہا ہے۔ یہاں نان لائٹ (non-light) لائٹ میں تبدیل ہو رہی ہے۔ یہاں نان انرجی (non-energy) انرجی کی صورت اختیار کررہی ہے۔ یہاں نان آکسیجن (non-oxygen) آکسیجن میں تبدیل ہورہا ہے، وغیرہ۔

فطرت کے نظام میں کنورژن کا یہ قانون نہایت اہم ہے۔ وہ خدا کے وجود کو اور اس کی ربوبیت کو ثابت کررہا ہے۔ اِس معاملے میں کنورژن کا مطلب ہے مداخلت(intervention)۔ چیزوں کا بہ طریقِ کنورژن وجود میں آنا، اِس معاملے میں مداخلت کو ثابت کرتا ہے۔ اور جب مداخلت کا فعل ثابت ہوجائے تو مداخلت کرنے والا اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے:

Conversion proves intervention, and when intervention is proved, intervenor is also proved, and God is only the other name of this intervenor.

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom