آنے والا وقت آگیا
بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ اکیسویں صدی عیسوی انسانی تاریخ کے خاتمہ کے آغاز کی صدی ہے۔ اب انسان کو غالباً زیادہ لمبی مہلت ملنے والی نہیں۔ اب مستقبل قریب میں جو چیز انسان کے سامنے آنے والی ہے، وہ صرف قیامت ہے، نہ کہ موجودہ دنیاکی مزید توسیع۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت اُس وقت آئے گی جب کہ دنیا میں کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے۔ اللہ اللہ کہنے سے مراد صرف اللہ کا لفظ زبان سے بولنا نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی اللہ سے ڈرنے والا نہ رہے۔ جب لوگوں کے دل اللہ کے خوف سے خالی ہوجائیں، جب اللہ ان کی زندگی میں ان کے کنسرن(concern)کی حیثیت سے باقی نہ رہے۔ جب اُس قسم کے انسان دنیا میں باقی نہ رہیں جن کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے توان کے دل اللہ کی پکڑ کے اندیشے سے دہل اٹھتے ہیں (الذین إذا ذُکر اللّٰہ وجلت قلوبہم)۔
موجودہ زمانہ بلا شبہہ ایسا ہی زمانہ ہے۔ آج خدا کی دنیا میں کوئی ایک بھی انسان ایسا نظر نہیں آتا جو حقیقی معنوں میں اللہ سے ڈرنے والا ہو، نہ مسلمانوں میں اور نہ غیر مسلموں میں۔
جس عورت اور مرد کو دیکھئے وہ بے خوفی کی تصویر نظرآئے گا۔ حتی کہ اگر اس کے سامنے خوف خدا کی بات کی جائے تو وہ اس کو اپنے لئے ایک غیر متعلق (irrelevant) بات سمجھے گا۔ اِس معاملے کی ایک علامت یہ ہے کہ آج کے انسان سے جب یہ کہا جائے کہ قیامت قریب آگئی تو وہ اس کو غیر اہم سمجھ کر کہہ دے گا: ’’ہنوز قیامت دور است‘‘۔ ابھی قیامت کہاں آنے والی ہے۔ کوئی اس کو اِس طرح نظر انداز کرے گا جیسے کہ وہ کوئی قابلِ غور بات ہی نہیں۔پہلے زمانے میں اہلِ ایمان کا یہ حال تھا کہ آندھی آجاتی تھی تو وہ ڈر جاتے تھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آگئی۔ آج کے مدعیانِ اسلام کا یہ حال ہے گلوبل وارمنگ کی صورت میں نیچر مسلسل اذان دے رہی ہے، اِس کے باوجود کوئی اِس موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ سوچنے والا نہیں۔ شاید لوگ اُس وقت جاگیں گے جب کہ قیامت آچکی ہوگی، لیکن اُس وقت کا جاگنا کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا۔