پاکستان کا موجودہ بحران

پاکستان کی فوج اور افغانستان کے طالبان کے درمیان اِس وقت سخت جنگ جاری ہے۔ روزانہ دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے جارہے ہیں، حالاں کہ یہ دونوں فریق مسلمان ہیں۔ دونوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم اسلامی قانون کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صورتِ حال اُس حدیثِ رسول کو یاد دلاتی ہے جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ قیامت کے قریب دو مسلم فریقوں کے درمیان جنگ ہوگی، جب کہ دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا (لا تقوم الساعۃ حتی تقتتل فئتان عظیمتان من المسلمین، دعوا ہما واحدۃ۔ مسند الحُمیدی، رقم الحدیث: 784، صحیح البخاری، رقم الحدیث:6588، صحیح مسلم، رقم الحدیث:5142)

پاکستان کی فوج نے افغانی طالبان کے خلاف جو لڑائی چھیڑی ہے، اُس کا نام انھوں نے آپریشن راہِ راست (Direct Action) رکھا ہے۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے 1946 میں پاکستانی قیادت نے ہندوؤں کے خلاف ڈائریکٹ ایکشن کا اعلان کیا تھا۔ اب پاکستانی قیادت نے خود مسلمانوں کے خلاف ڈائریکٹ ایکشن شروع کردیا ہے۔پاکستان کے ملٹری چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ— ہم یہاں جو لڑائی لڑ رہے ہیں، اُس میں اور روایتی لڑائی میں بہت فرق ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں دوست اور دشمن کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے:

There is a difference between conventional war and the present one. In the ongoing war, it is difficult to identify friends or foes. (The Times of India, New Delhi. June 16, 2009)

اِس سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ ایک طویل روایت میں یہ الفاظ ہیں : ویُلقیٰ بین الناس التناکُر، فلایکاد أحدٌ أن یعرف أحداً(مسند احمد، جلد 5، صفحہ 389) یعنی قربِ قیامت کے وقت ایسا ہوگا کہ لوگوں کے درمیان ایک دوسرے سے بے گانگی پیدا ہوجائے گی۔ لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ ایک شخص دوسرے شخص کو نہیں پہچانے گا۔ جنرل کیانی نے جس چیزکو دوست اور دشمن کے درمیان تمیز اٹھ جانا بتایا ہے، اسی کو مذکورہ حدیث میں ’تناکر‘ کے لفظ سے تعبیر کیاگیاہے۔

پاکستانی فوج اور افغانی طالبان کے درمیان جو سنگین صورتِ حال قائم ہے، وہ کسی بیرونی طاقت کی ’’سازش‘‘ کی بنا پر نہیں ہے، وہ تمام تر مسلم لیڈروں کی خود اپنی بھیانک غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ اِن میں سے دو مبیّنہ غلطیوں کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔

1-پاکستانی قیادت کی پہلی غلطی یہ ہے کہ اس نے اپنے مفروضہ کشمیری جہاد کے لیے غیر فوجی طالبان کو مسلّح کیا۔ یہ بلا شبہہ ایک غیر اسلامی فعل تھا، کیوں کہ اسلام میں اسلحے کا استعمال صرف باقاعدہ فوج کے لیے جائز ہے، غیر فوجی افراد یا تنظیموں (NGOs)کے لیے اسلحے کا استعمال جائز نہیں۔ اب پاکستان میں جو باہمی تشدد ہورہا ہے، وہ اِسی بھیانک غلطی کی قیمت ہے۔ تقریباً یقینی ہے کہ آپریشن راہِ راست سے موجودہ متشددانہ صورتِ حال کا خاتمہ ہونے والا نہیں۔

2-دوسری بھیانک غلطی وہ ہے جو اسلام کی سیاسی تعبیر کا نتیجہ ہے۔ پاکستان اور طالبان دونوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر کو اپنا رکھا ہے۔ سیاسی تعبیر کا نقصان یہ ہے کہ اسلام اتباع (following) کے بجائے نفاذ (enforcement) کا موضوع بن جاتاہے۔ اِس سیاسی تعبیر کے نتیجے میں یہ ہوا کہ پہلے پاکستان اور افغانستان میں سیاسی غلو (political extremism) آیا۔ اِس کے بعد فطری طورپر ٹکراؤ کی سیاست شروع ہوئی، اور آخر میں یہ ذہن پیداہوا کہ طاقت کے زور پر اسلامی قانون کو نافذ کیا جائے۔ چناں چہ طالبان کا نعرہ ہے— شریعت یا شہادت۔

پاکستان اور افغانستان دونوں جس نازک صورتِ حال سے دوچار ہیں، اس کا حل کیا ہے۔ اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ وہی ہے جس کو شریعت کی زبان میں توبہ کہا جاتا ہے، یعنی اپنی غلطی کا کھلا اعتراف اور تشدد کی روش کوچھوڑ کر امن کی بنیادوں پر اپنے عمل کی ازسرِ نو منصوبہ بندی۔ جس طرح خالص دینی معاملات میں اصلاح کا آغاز توبہ سے ہوتا ہے، اُسی طرح قومی اور سیاسی زندگی میں بھی کوئی نیا بہتر آغاز رجوع و اعتراف کے ذریعے ہوتا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کو مانے بغیر مستقبل کی کامیاب منصوبہ بندی ممکن نہیں ہوتی، اور پاکستان اِس معاملے میں کوئی استثناء نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom