سائنس دانوں کا مذہب
سائنس کیا ہے۔ سائنس کے لفظی معنی علم (knowledge) کے ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں سائنس سے مراد وہ شعبۂ علم ہے جس میں منضبط انداز میں عالمِ فطرت کا مطالعہ کیا جاتا ہے:
Science: The systematized knowledge of nature and the physical world.
سائنسی علوم میں مطالعے کی بنیاد علم الحساب (mathematics) ہوتا ہے۔ اِس بنا پر اِن علوم میں قطعی نتائج تک پہنچنا ممکن ہوجاتا ہے۔ اِس لیے سائنسی علوم کو علومِ قطعیہ (exact sciences) کہاجاتا ہے۔ سائنس داں اِس شعبۂ علم کا مطالعہ کرتا ہے۔ وہ اِس میں اپنے آپ کو مشغول کرتاہے۔ علومِ قطعیہ میں اِس مشغولیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سائنس داں کے اندر قطعی طرزِ فکر (exact thinking)پیدا ہوجاتی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سائنس دانوں کا ذہن ادیبوں اور شاعروں سے بالکل مختلف ہوتاہے۔ سائنس داں اپنی فکر کے اعتبار سے بے حد حقیقت پسند ہوتا ہے۔ اپنے میدانِ مطالعہ کی بنا پر سائنس داں کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ خیالی انداز میں سوچے، وہ ثابت شدہ حقیقت کا انکار کردے۔ سائنسی مطالعہ ایک سائنس داں کوکامل طورپر ایک سنجیدہ انسان بنا دیتا ہے۔
بہت سے اہلِ علم نے اِس معاملے کا مطالعہ مذہب کے زاویۂ نظر سے کیا ہے۔ انھوں نے پایا ہے کہ تمام سائنس داں کسی نہ کسی طورپر اپنے اندر وہ احساس پاتے تھے جس کو مذہبی احساس (religious feeling)کہاجاتا ہے۔ اِس سلسلے میں یہاں دو کتابوں کے نام لکھے جاتے ہیں :
Einstein and Religion, by Max Jammer
The God Delusion, by Richard Dawkins
اِس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ کوئی سائنس داں جب فطرت کا مطالعہ کرتا ہے، تو وہ نہایت گہرائی کے ساتھ اِس حقیقت کا ادراک کرتا ہے کہ فطرت کے نظام میں کامل درجے کی معنویت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔سائنس داں کو فطرت کے اِس نظام کے اندر ایک پُراسرارقسم کی طاقت کار فرما نظر آتی ہے۔وہ اپنے آپ کو اِس پوزیشن میں نہیں پاتا کہ وہ اس کی توجیہہ کرسکے۔ اس کے باوجود وہ اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اِس پُراسرار احساس کو مشہور جرمن سائنس داں آئن اسٹائن (وفات: 1955) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے— ایک شخص جو فطرت کا مطالعہ کرے، اُس کا سب سے زیادہ خوب صورت تجربہ یہ ہوتاہے کہ فطرت میں گہری پُراسراریت ہے۔ تم مشکل سے کوئی ایسا آدمی پاؤگے جو گہراسائنسی ذہن رکھتا ہو، پھر بھی وہ مذہبی احساسات سے خالی ہو:
The most beautiful experience one may enjoy is a ‘sense of mystery; you will hardly find one among the profounder sort of scientific minds without a ‘religious feeling’ (The Times of India, New Delhi, April 5, 2008, p. 20. Quoted by, Andrew Whitaker, Professor of Physics at Queen’s University, Belfast, Ireland.)
سائنس داں فطرت میں اپنے اِس تجربے کو کاسمک ریلیجن (cosmic religion) سے تعبیر کرتے ہیں۔ تاہم سائنس داں عام طورپر خدا (God) کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ شخصی خدا (personal God) کے تصور کو ماننا نہیں چاہتے۔ کیوں کہ شخصی خدا کے ساتھ اتھارٹی (authority) کا تصور جڑا ہوا ہے، اور اتھارٹی کے ساتھ انعام اور سزا (reward and punishment) کا تصور، اور یہ وہ چیز ہے جس کو کوئی سائنس داں، یا جدید ذہن ماننے کے لیے تیار نہیں۔
سائنس داں فطرت کے مطالعہ کے دوران ایک حیرت انگیز قسم کے پُراسرار احساس سے دوچار ہوتاہے۔ اِس کو ایک احساسِ استعجاب (sense of awe) کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہی احساس کسی سائنس داں کے لیے سب سے بڑی داخلی طاقت ہوتا ہے۔ آئن اسٹائن کے ایک سوانح نگار نے اس کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہیں— آئن اسٹائن اِس کو کاسمک ریلیجن کہتا ہے۔ فطرت کے نظام میں حیران کُن انضباط کی موجودگی، سائنس داں کے لیے ایک ایسا سوال بنی ہوئی ہے جو اُس کو مذہب جیسی ایک سوچ کی طرف لے جاتی ہے:
He called it ‘cosmic religion’ and it was a sense of awe at the nobility and marvelous order which are reflected in nature and in the world of thought. He believed that throughout history, the greatest religious geniuses have followed cosmic religion, and that exploring this order in the laws of science was the motivation for the most celebrated scientists such as Newton and Kepler. Without this feeling of confidence in order and simplicity, science, he felt degenerated into uninspired empiricism.
سائنس، نیچر کے مطالعے کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں سائنس خدا کی تخلیق کا مطالعہ کرتی ہے۔ اِس مطالعے میں فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ تخلیقی قوانین میں خالق کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ سائنس داں کا موضوع اگرچہ فطرت کے قوانین کا مطالعہ ہے، لیکن فطرت کو اس کے فاطر سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اِس لیے فطرت کے مطالعے کا بالواسطہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سائنس داں، فطرت کی دریافت کے ساتھ فاطر کے بہت قریب آجاتا ہے۔
تقریباً تمام سائنس دانوں نے بالواسطہ انداز میں خدا کے وجود کا اعتراف کیا ہے۔ سرآیزاک نیوٹن (وفات: 1727) اور کپلر (وفات: 1630) نے اس ہستی کو آرڈر(order) کا نام دیا ہے۔ اس کے بعد اسپنوزا (وفات: 1677) اور آئن اسٹائن (وفات: 1955) نے اس کو کاسمک اسپرٹ(cosmic spirit) بتایا۔ اس کے بعد سر آرتھر ایڈنگٹن (وفات: 1944) اور سرجیمز جینز (وفات: 1946) نے اس کو ریاضیاتی مائنڈ (mathematical mind) کا نام دیا۔
تاہم غالباً کسی بھی سائنس داں نے اِس خالق کا اعتراف خدا یاپرسنل گاڈ(personal God) کے الفاظ میں نہیں کیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سائنس دانوں نے خدا کے وجود کا اعتراف بالواسطہ انداز میں توضرور کیا، لیکن براہِ راست انداز میں خدا کے وجود کا کھلا اعتراف ابھی تک سائنٹفک کمیونٹی کی طرف سے نہیں آیا۔
سائنس کے دوبڑے شعبے ہیں— نظریاتی سائنس (theoretical science) اور عملی سائنس (practical science)۔ خدا کا موضوع نظریاتی سائنس سے تعلق رکھتا ہے۔اِس معاملے میں بد قسمتی سے ایسا ہوا کہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں پہنچ کر نظریاتی سائنس میں تحقیق کا کام تقریباً ختم ہوگیا۔ اب صرف انطباقی سائنس (applied science) کے میدان میں تحقیق کا کام ہونے لگا۔کیوں کہ انطباقی سائنس میں مادّی مفاد(material interest) بہت زیادہ شامل ہوگیا۔
نظریاتی سائنس کے میدان میں مزید بڑا کام کرنے کے لیے نہایت اعلیٰ دماغ درکار ہے۔ صرف ڈگری یافتہ لوگ ایسا نہیں کرسکتے۔ موجودہ زمانے میں اِس قسم کا بڑا سائنسی دماغ صرف ایک ہے، اور وہ برطانیہ کا اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) ہے۔ اسٹفن ہاکنگ نے نظریاتی سائنس کے میدان میں عملاً بھی کچھ بڑے کام کیے ہیں۔ مثلاً سنگل اسٹرنگ تھیوری (Single String Theory) جو توحید کے نظریے کو اصولی طور پر ثابت کرتی ہے۔ لیکن نظریاتی سائنس کے میدان میں کام کرنے کے لیے اعلیٰ سائنس دانوں کی ایک پوری جماعت درکار ہے۔ اور بدقسمتی سے آج ایسی جماعت موجود نہیں۔
جدید سائنس کی تاریخ بتاتی ہے کہ تدریجی طورپر سائنس اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سائنس داں کائنات میں دماغ (mind) جیسے کسی عنصر کی کار فرمائی تسلیم کرتے ہیں۔ حقیقت کے اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ دماغ کو ماننا بالواسطہ طورپر خدا کو ماننے کے ہم معنیٰ ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اِس بالواسطہ سائنس کو براہِ راست سائنسی اقرار کے درجے تک پہنچایا جائے۔ یہ بلاشبہہ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا علمی اور فکری کام ہے۔ یہ کام کوئی اعلیٰ سائنسی دماغ ہی کرسکتا ہے۔ یہ کام صرف وہ شخص انجام دے گا جو اعلیٰ ریاضیات (higher mathematics) کی زبان میں اس کو انجام دے سکتا ہو۔ شاید یہ کام ڈاکٹر عبد السلام (وفات: 1996) انجام دے سکتے تھے، جن کو 1979 میں سائنس کا نوبل پرائز ملا تھا۔ لیکن مسلمانوں کے تعصبانہ مزاج کی بنا پر یہ امکان واقعہ نہ بن سکا۔