زندگی کی حقیقت

26 ستمبر 2008 کی شام کو نئی دہلی کے پارلیمنٹ انیکسی میں ایک خاص فنکشن تھا۔ یہ فنکشن فاؤنڈیشن فار امیٹی اینڈ نیشنل سالیڈریرٹی نے پارلیمنٹ ہاؤس انکسی کے مین کمیٹی روم میں آرگنائز کیا تھا۔ یہ وسیع ہال بھرا ہوا تھا۔ دہلی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ یہاں موجود تھے۔

پروگرام کے مطابق مشہور جرنلسٹ مسٹر خشونت سنگھ (پیدائش 1915) کو ان کی خدمات پر اوارڈ دیاگیا۔ یہ اوارڈ لوک سبھا کے اسپیکر مسٹر سوم ناتھ چٹر جی کے ذریعہ دیاگیا۔ اِس موقع پر مسٹرشندے نے کہا کہ مسٹر خوشونت سنگھ کا نظریۂ حیات یہ ہے کہ— زندگی کی اچھی چیزوں سے انجوائے کرو:

Enjoy the good things in life.

اِس موقع پر ان کی دعوت پر راقم الحروف نے اس میں شرکت کی۔ الرسالہ مشن کے تقریباً 10 افراد بھی میرے ساتھ وہاں گئے۔ ان لوگوں نے انگریزی میں چھپا ہوا دعوتی لٹریچر تمام لوگوں کو دیا۔ ان میں وہ پمفلٹ بھی شامل تھا جو ریلٹی آف لائف (Reality of Life) کے نام سے شائع کیاگیا ہے۔ اِس پمفلٹ میں زندگی کا بالکل برعکس نظریہ پیش کیاگیا تھا۔ اس دوسرے نظریہ کو مختصر طورپر ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے— زندگی میں اچھے کام کرو:

Do good things in life.

اِس پروگرام کے چیف گیسٹ مسٹر خوشونت سنگھ تھے۔ ان کی عمر تقریباً 95 سال ہوچکی ہے۔ وہ سیدھے نہیں چل سکتے تھے۔ دو آدمیوں کے سہارے دھیرے دھیرے چل کر وہ اسٹیج پر پہنچے۔ وہ اس طرح وہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے چہرے پر کوئی خوشی نہ ـتھی۔ وہ افسردگی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ جس وقت ان کے تعارف میں ان کا مذکورہ فارمولا بتایا گیا، اس وقت وہ اسٹیج پر اس طرح دکھائی دیتے تھے جیسے کہ وہ کہہ رہے ہوں کہ— زندگی کا یہ فارمولا اِس دنیامیں قابلِ عمل نہیں :

Enjoy good things in life only to become so weak that you are unable to enjoy at all.

اِس وقت مذکورہ پمفلٹ (Reality of Life) خوشونت سنگھ سمیت تمام لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ یہ پمفلٹ خاموش زبان میں برعکس طورپر لوگوں کو یہ پیغام دے رہا تھا— زندگی میں اچھے کام کرو، تاکہ تم موت کے بعد کی ابدی دنیا میں زندگی کی خوشیوں کو پاسکو:

Do good things in life so that you may enjoy life eternally in the world hereafter.

ہر زمانے میں انسانوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی رہی ہے کہ موجودہ دنیا اُس کے لیے ٹھیک ویسی ہی ہے جیسے کہ جانور کے لیے سرسبز چراہ گاہ، یعنی کھاؤ پیو اور خوش رہو، اِس سے زیادہ تمھاری کوئی اور ذمے داری نہیں۔

تاریخ کے تمام زمانوں میں بیش تر لوگ اِسی قسم کی سوچ میں مبتلا رہے ہیں۔ ہر زمانے کے لوگ مختلف انداز میں اپنی اِس سوچ کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طورپر شہنشاہ بابر (وفات: 1530) نے کہا تھا کہ— بابر عیش کرلو، کیوں کہ یہ موقع دوبارہ ملنے والا نہیں :

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

مگر تجربہ بتاتا ہے کہ اِس دنیا میں کوئی بھی شخص عیش و عشرت کی مطلوب زندگی حاصل نہ کرسکا۔ ہر آدمی کا انجام صرف یہ ہوا کہ وہ موہوم آرزؤں میں جیے اور پھر ناکامی کی موت مر کر اِس دنیا سے چلا جائے۔

زندگی کے معاملے کو سمجھنے کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) کو دریافت کرے اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ خود ساختہ طورپر زندگی کی ایک منزل مقرر کرنا اور اس کے مطابق جینے کی کوشش کرنا کسی کے لیے بھی قابلِ عمل نہیں، نہ عام انسان کے لیے اور نہ نام نہاد قسم کے بڑے انسانوں کے لیے۔ اِس معاملے میں چھوٹے انسان اور بڑے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom