زندگی کا مقصد
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے پیدا کرنے والے نے اس کو کَبَد (البلد،90:4) میں پیدا کیا ہے، انسان کے لیے یہ مقدر ہے کہ اس کو مختلف قسم کی مصیبتیں (البقرۃ،2:155) آئیں، اسی طرح بتایا گیا ہے کہ انسا ن کو خُسران میں پیدا کیا گیا ہے(العصر، 103:2)، زندگی کا سفر انسان کے لیے مشقت کا سفر (الانشقاق،84:6) ہے، انسان کو پیدا کرنے کے بعد خالق نے اس کو اسفل سافلین میں ڈال دیا (التین،95:5)، وغیرہ۔
ایک طرف قرآن میں اس قسم کے بیانات ہیں۔ دوسری طرف قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان ایک مکرم مخلوق (الاسراء،17:70) ہے، انسان کو احسن تقویم (التین،95:4) کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، وغیرہ۔ ان دونوں قسم کی آیتوں میں تطبیق کیا ہے۔ اس کا جواب جنت کے تصور میں ملتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ (32:17)۔ اسی طرح ہے:وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ (41:31)، اور فرمایا:وَفِیہَا مَا تَشْتَہِیہِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْیُنُ وَأَنْتُمْ فِیہَا خَالِدُونَ (43:71)۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا کی مصیبتیں انسان کی تربیت کے لیے ہیں، نہ کہ تکلیف کے لیے۔ خالق نے ایک معیاری دنیا بنائی ہے، جنت۔ یہی جنت کی دنیا انسان کا اصل مسکن (habitat) ہے۔ موجودہ دنیا اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ انسان اپنے آپ کو احسن العمل (best in conduct)ثابت کرے(الملک،67:2)۔ موجودہ دنیا کی مصیبتوں کا جواب یہ ہے کہ یہی واحد طریقہ ہے جس کے ذریعہ انسان کو تربیت یافتہ انسان بنایا جائے، ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ جنت میں داخلے کے مستحق ٹھہریں۔ ہر بڑی کامیابی سے پہلے مشقت کا ایک دور آتا ہے۔ یہ مشقت کا دور انسان کی تیاری اور تربیت کے لیےہوتا ہے۔ اگر یہ دور نہ آئے تو انسان کامیابی کو سنبھالنے کے قابل نہیں بنے گا۔ یعنی پہلے تربیتی دور سے گزر کر اپنے آپ کو اہل ثابت کرنا، اور اس کے بعد ابدی جنت میں داخلہ پانا۔