الاضحی، پیغمبر ابراہیم کا منصوبہ

11 ستمبر 2001 کو نیو یارک میں ایک ہولناک واقعہ ہوا، جس کو عام طور پر نائن الیون کہا جاتا ہے۔ اس دن کچھ مسلم نوجوانوں نےچار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کیا، اور ان میں سے دو کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرادیا۔ اس کے نتیجے میں 104 منزل کا ٹاور فوراً تباہ ہوگیا۔ اس حادثے میں تقریباً تین ہزار آدمی فوری طور پر ہلاک ہوگئے۔ اس واقعہ میں ملوث انیس مسلم ہائی جیکر بھی ہلاک ہوگئے۔چار مسلمان جنھوں نے جہاز کو آخری مرحلہ میں چلایا تھا، ان کے نام یہ ہیں: محمد عطا، مروان الشحی، ہانی حنجور، زیاد جراح۔

یہ واقعہ گیارہ ستمبر 2001 کو نیویارک میں ہوا تھا۔ سال 1437 ھ میں کیلنڈر کے اتفاق کی بنا پر عید الاضحی اسی تاریخ (9/11)کےقریب ہوئی ہے۔مگر منصوبے کےاعتبار سے دیکھاجائے تو دونوں واقعے میں فرق ہے۔پہلےواقعہ میں انسان کو ہلاک کرنے کا منصوبہ تھا، تو عید الاضحی کی ابراہیمی یادگار انسان کو زندگی دینے کا منصوبہ ہے۔ اس لحاظ سے عید الاضحی مسلمانوں کو یاد دلارہی ہے کہ تم انسان کی ہلاکت کا منصوبہ چھوڑو، اور انسان کو زندگی دینے کا منصوبہ بناؤ۔ قرآن کی ایک آیت میں دونوں قسم کے منصوبے کے فرق کو اس طرح بتایا گیا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اس نے سارے آدمیوں کو بچا لیا۔ (المائدہ،5:32)

پیغمبر ابراہیم بن آزر تینوں سامی مذاہب یہودیت، عیسائیت، اور اسلام کے مورث اعلیٰ تھے۔ وہ عراق کے قدیم شہر اُر (Ur)میں پیدا ہوئے۔ وہ 175 سال زندہ رہے، اور 1985 ق م میں ان کی وفات ہوئی۔ وہ پورے معنوں میں ایک مین آف مشن تھے۔ انھوں نے اپنی لمبی عمر میں اپنا مشن عراق میں اور اطراف کے علاقے میں چلایا۔ مگر اپنے خاندان کے چند افراد (بیوی، بھتیجا،بیٹا) کے سوا کوئی ان کو ساتھی نہیں ملا۔ ان کا مشن تاریخ میں امن کا دور لانا تھا۔ مشن کے اس انجام کا سبب یہ تھا کہ اس زمانے میں ساری دنیا کے انسانوں میں قبائلی کلچر (tribal culture) کا رواج تھا۔ اس کلچر کے تحت لوگ مسلسل طور پر آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ اس کے سوا کسی اور کلچر کو وہ جانتے ہی نہ تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ قدیم زمانے میں دنیا میں کوئی بڑا تعمیری کام نہ ہوسکا۔ قدیم زمانے کے انسان نے لڑائی کی تاریخیں تو بنائی لیکن وہ امن کی تاریخ بنانے میں ناکام رہے۔

اللہ کی ہدایت کے مطابق، حضرت ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ تھا، خصوصی تربیت کے ذریعے ایک نئی نسل بنانا۔ یہ صحرائی تربیت (desert therapy) کا طریقہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو لاکر عرب کے غیر آباد صحرا میں بسا دیا۔ یہاں نسل در نسل ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے ایک نئی نسل بنی جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔

یہ نسل تاریخ کی پہلی امن پسند نسل تھی۔ اس واقعے کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں اس طرح کیا گیا ہے:وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُمْ مِنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللَّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ (3:103)۔ یعنی اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔ اور اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی۔ پس تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ تمھارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ پاؤ۔

صحرائی تربیت کے ذریعے پیدا ہونے والا یہی وہ امن پسند گروہ ہے، جس کو پیغمبرِ اسلام نے بامقصد بنیاد پر منظم کیا۔ اور پھر ان کو لے کر وہ انقلاب برپا کیا جو تاریخ کا پہلا مبنی بر امن انقلاب تھا۔ اس امن پسند گروہ کی جدو جہد کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا پراسس شروع ہوا، جو اس پر امن دور تک پہنچا، جس کو جدید دور (modern age)کہا جاتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom