نیت پر حملہ

تنقید (criticism) کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے کسی آدمی کے قول پر ثابت شدہ حقائق کی روشنی میں علمی تجزیہ (analysis)کرنا۔ ایسا تجزیہ جس میں آدمی کی نیت زیر بحث نہ آئی ہو، بلکہ صرف اس کے نقطۂ نظر کاموضوعی (objective) انداز میں جائزہ لیا گیا ہو۔ یہ طریقہ ایک جائز طریقہ ہے۔ قرآن یا حدیث کا کوئی حوالہ ایسا نہیں ہے، جو اس طریقے کو دینِ اسلام کے خلاف بتاتا ہو۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی آدمی کی طرف ایک ایسی بات کو منسوب کرنا، جس کے بارے میں کوئی ثابت شدہ حوالہ ایسا موجود نہ ہو کہ اس نے جو کچھ کہا یا لکھا ہے، وہ قصداً (intentionally) کہا یا لکھاہے، بلکہ وہ ناقد کا اپنا مفروضہ ہو۔ ایسی تنقید اسلام میں بلاشبہ جائز نہیں، اور آدمی کو اس دوسرے قسم کی تنقید سے کامل پرہیز کرنا چاہیے۔

مذکورہ تقسیم میں دوسری قسم کی تنقید بے حد خطرناک ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی تنقید کا ارتکاب کرے، تو اس کو ڈرنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے وہ خود اللہ کی پکڑ میں نہ آجائے۔کیوں کہ حدیث سے غیر مشتبہ طور پر اس کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث یہاں نقل کی جاتی ہے۔ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت ہے:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لاَ یَرْمِی رَجُلٌ رَجُلًا بِالفُسُوقِ، وَلاَ یَرْمِیہِ بِالکُفْرِ، إِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَیْہِ، إِنْ لَمْ یَکُنْ صَاحِبُہُ کَذَلِکَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6045)۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر کوئی کسی شخص پر کفر یا فسق کا الزام لگائے، تو وہ خود کہنے والے کی طرف لوٹ جائے گا، اگر دوسرا شخص ایسا نہ ہو۔

کفر یا فسق اپنی حقیقت کے اعتبار سے کوئی خارجی واقعہ نہیں۔ بلکہ اس کا تعلق آدمی کی اپنی نیت سے ہے۔ اس لیے کسی کو کافر یا فاسق کہنا، اس کی نیت پر حملہ بن جاتا ہے۔ اس لیے کسی کو کافر یا فاسق کہنا کسی حال میں جائز نہیں۔ یہ تمام تر اللہ رب العالمین کا معاملہ ہے، وہ انسان کے بیان کا معاملہ نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom