عورت کی تخلیق
عورت کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح ابن حبان کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّمَا مَثَلُ الْمَرْأَةِ کَالضِّلَعِ، إِنْ أَرَدْتَ إِقَامَتَہَا کُسِرَتْ، وَإِنَّ تَسْتَمْتِعْ بِہَا تَسْتَمْتِعْ بِہَا وَفِیہَا عِوَجٌ، فَاسْتَمْتِعْ بِہَا عَلَى مَا کَانَ مِنْہَا من عوج(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 4180)۔ یعنی عورت کی مثال پسلی کی مانند ہے۔ اگر تم چاہو اس کو سیدھا کرنا تو تم اس کو توڑ دو گے۔ اور اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھاؤگے، اور اس کے اندر ایک ٹیڑ ھ ہے، پس تم اس کی ٹیڑھ کے باوجود اس سے فائدہ اٹھاؤ (تو تم اس سے فائدہ پاؤ گے)۔
اس حدیث میں عوج (ٹیڑھ) سے مراد یہ نہیں ہے کہ عورت کے اندر کوئی تخلیقی کجی ہے۔ یہ در اصل تمثیل کی زبان ہے۔ یعنی اس سے مرادوہ مخصوص مزاج ہے، جو عورتوں کے اندر پایا جاتا ہے۔ عورت اپنے مزاج کے اعتبار سے جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ اسی جذباتی مزاج کو پسلی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
جذباتی مزاج کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کسی بات کو عقلی طور پر سوچنے سے پہلے بھڑک اٹھنا۔ کوئی بات مزاج کے خلاف ہو تو ٹھنڈے طریقے سے سوچے بغیر رائے قائم کرلینا۔ کسی بات پر اتنا شدید ہوجانا کہ سمجھنے سمجھانے کا دروازہ بند ہوجائے۔کسی معاملے کو نتیجے کے اعتبار سے نہ دیکھنا، بلکہ صرف جذباتی پہلو سے سوچنا۔ اپنے کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھ لینا۔ اس قسم کی تمام باتیں جذباتیت (emotionalism) سے تعلق رکھتی ہیں۔
جو آدمی اس طرح کی جذباتیت کا شکار ہوجائے، اس کو صرف اپنے موافق بات سمجھ میں آتی ہے۔اس کے خلاف کوئی بات اس کو سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ جو بات اپنے مزاج کےخلاف نظر آئے، اس پر وہ سوچنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ایسے آدمی کو نرمی سے سمجھایا جاسکتاہے۔ لیکن اس کو سختی سے سمجھانا، ممکن نہیں ہوتا۔