احسن العمل کون

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (67:2)۔اس آیت کے مطابق، تخلیقِ انسانی کا مقصد پوری تاریخ سے ایسے افراد کا انتخاب ہے، جو عمل کے اعتبار سے احسن ہونے کا ثبوت دیں۔ یہاں عمل کا لفظ اپنے جامع معنی میں ہے، یعنی عمل کی ہر قسم کے اعتبار سے احسن۔

انسان کو عمل کے کن پہلوؤں کے اعتبار سے احسن ثابت ہونا چاہیے۔ یہ بات قرآن کی دوسری آیتوں پر غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہے۔ مثلاً یہ کہ اس انتخابِ افراد کا مقصد کیا ہے۔ قرآن کی دوسری آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کی دنیا میں خدا کی ایک قربت گاہ (التحریم، 66:11) ہوگی۔جس کے لیے پوری تاریخ سے بہترین افراد کا انتخاب کیا جائے گا۔ اس قربت گاہ کو بتانے کے لیے دوسری جگہ یہ الفاظ آئے ہیں: إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوعَدُونَ۔ نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ۔ نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِیمٍ (41:30-32)۔ یعنی جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے، پھر وہ ثابت قدم رہے، یقیناً ان پر فرشتے اترتے ہیں اور وہ ان سے کہتے ہیں کہ تم نہ اندیشہ کرو اور نہ رنج کرو اور اس جنت کی بشارت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم دنیا کی زندگی میں تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ اور تمہارے لیے وہاں ہر چیز ہے جس کا تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے۔ بخشنے والے، مہربان کی طرف سے مہمانی کے طور پر۔

اس سے معلوم ہوا کہ یہ قربت گاہ جنت ہوگی،جو گویاخدائی ضیافت (hospitality) کا مقام ہوگا۔یہاں انسان کو ہر قسم کا فل فلمنٹ (fulfilment)حاصل ہوگا۔ یہ اعلیٰ اقامت گاہ فرشتوں کے انتظام میں بنے گی۔ قرآن کی دوسری آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ان منتخب افراد کی صفات کیا ہوں گی۔ اس سلسلے میں چند آیتیں یہ ہیں:

1۔ احسن باعتبار معرفت: مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ(5:83)

2۔ احسن باعتبار کلام:وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ (16:125)

3۔ احسن باعتبار اخلاق:ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ (41:34)

4۔ احسن باعتبار ہمسائگی:وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)

5۔ احسن باعتبار سلوک:لَا یَسْمَعُونَ فِیہَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِیمًا (56:25)، وغیرہ۔

اس قسم کی صفات جنت میں جاکر انسان کے اندر پیدا نہیں ہوں گے، بلکہ اسی دنیا میں انسان کو اپنے اندر یہ صفات پیدا کرنا ہے۔ یعنی ان پہلوؤں کے اعتبار سے جو لوگ موجودہ دنیا کی زندگی میں احسن العمل ثابت ہوں، وہ اللہ کی نظر میں قابلِ انتخاب افراد ہیں۔ فرشتوں کے ریکارڈ کے مطابق، ایسے لوگوں کو منتخب کرکے ایک ایسی دنیا میں جمع کیا جائے گا، جو ابدی ہوگی، اور عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ (3:133)کی مصداق ہوگی۔ یعنی جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔

اہلِ سائنس نے ارض و سماء کی جو تاریخ دریافت کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالقِ کائنات نے ایک عالم کی تخلیق کی۔ اس عالم میں وہ ساری خوبیاں موجود تھیں، جو انسان جیسی کوئی مخلوق سوچ سکتا ہے۔ لیکن اس وسیع دنیا میں بظاہر رہنے والے لوگ موجود نہ تھے۔ اس کے بعد خالق نے انسان کو پیدا کیا۔ انسان کو مکمل آزادی دے کر سیارۂ ارض پر بسنے کا موقع دیا۔ آزاد ماحول کی یہ دنیا گویا ایک عظیم انسانی نرسری (nursery) تھی۔ اس میں ہر عورت اور مرد کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو گرو (grow) کرے، اور یہ ثابت کرے کہ وہ مطلوب معیار کے مطابق پورا اترتا ہے یا نہیں۔ یہ کام فرشتوں کی نگرانی میں پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اس تاریخ کے آخر میں یہ ہوگا کہ تمام پیدا ہونے والے عورتوں اور مردوں کو اکٹھا کیا جائے گا، اور فرشتوں کے ریکارڈ کے مطابق، ان میں سے مطلوب افراد کا انتخاب ہوگا، اور ان کو یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ جنت کے باغوں میں داخل ہوجائیں، اور ابدی طور پر وہاں ایک ایسی دنیا میں رہیں، جہاں ان کے لیے نہ حزن ہوگا اور نہ خوف (یونس، 10:62)۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom