بے باکی یا دانش مندی
ایک مسلم رہنما کی تعریف میں ایک مضمون دیکھا۔ اس کا ایک جملہ یہ تھا— انہوں نے ملکی مسائل کے ساتھ ساتھ ہندستانی مسلمانوں کے مخصوص مسائل کے بارے میں گہرائی سے غور وفکر کیا، اورہمیشہ پوری بے باکی سے اس پر اظہارِ خیال کیا۔
مشہور شخصیتوں کے بارے میں اکثر اس طرح کا جملہ لکھا اور بولا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مسائل پر بے باکی کے ساتھ اظہارِ خیا ل کرنا، کوئی کام نہیں۔ عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس طرح کے بےباکانہ اظہارِ خیال کا کوئی فائدہ نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ صورتِ حال کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔ پھر مواقع کی دریافت کی جائے، لوگوں کو بتایا جائے کہ مسائل کے باوجود کون سے مواقع موجود ہیں، جن کو اویل (avail) کرکے ترقی کی طرف کامیاب سفر جاری کیا جاسکتا ہے۔’’بے باکانہ اظہارِ خیال‘‘ دراصل ری ایکشن (reaction) کا دوسرا نام ہے، اور ری ایکشن کا طریقہ صرف مسائل میں اضافہ کرنے والا ہے، نہ کہ مسائل میں کمی کرنے والا۔
اس قسم کے بے باکانہ اظہارِ خیال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر منفی سوچ پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر منفی سوچ بڑھتے بڑھتے تشدد کی سوچ اختیار کرلیتی ہے۔ لوگ ذہنی طور پر اس قابل نہیں رہتے کہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں سوچیں، اور حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے عمل کا منصوبہ بنائیں۔
مبنی بر مسائل سوچ (problem-based thinking) کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا ذہن منفی ذہن بن جاتاہے۔ وہ دوسروں کی مفروضہ یا غیر مفروضہ زیادتیوں پر سوچتا ہے، لیکن خود اپنی کوتاہیوں کا جائزہ نہیں لیتا۔ اس کے اندر یہ ذہن بن جاتا ہے کہ ہر معاملے میں غلطی دوسروں کی ہے، میری کوئی غلطی نہیں۔ ہر مسئلے کے ذمے دار دوسرے لوگ ہیں، میں ذمے دار نہیں۔ اس قسم کی ذہن سازی الٹی ذہن سازی ہے۔ ایسی ذہن سازی قوم کی خدمت نہیں ہے، بلکہ وہ قوم کو غلط رہنمائی کرنے کے ہم معنی ہے۔