ایک سوال
Your analysis of our current circumstances and proposed solutions based upon it, are very logical, practicable and bound to produce results if followed in true spirit. Your guidance for Pakistani citizens on how to participate in these elections so that an honest and God-fearing team may come forth to lead the whole nation and the country to the right direction and the right path is highly required. It might prove quite beneficial for, at least, all those people, who want to use this voting opportunity to develop a better situation. Thanks. (M. Iqbal, Pakistan)
جواب
اس کا سوال کا جواب ایک حدیث رسول میں ملتا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ أَبِی بَکْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:کَمَا تَکُونُونَ یُوَلَّى أَوْ یُؤَمَّرُ عَلَیْکُمْ (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 577)۔ یعنی ابوبکرۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے کہا: جیسے تم ہوگے،ویسے ہی حاکم تمھارے اوپر ہوں گے۔
اس حدیثِ رسول پر غور کیجیے۔ اس حدیثِ رسول سے ایک اہم سیاسی اصول معلوم ہوتا ہے۔ اس حدیثِ رسول میں کما تکونون کا مطلب یہ ہے کہ جیسا معاشرہ ہوگا، اور یولی او یومرکا مطلب ہے حکمراں۔ مزید غور کیجیے تو اس کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جیسا تمھارا معاشرہ ہوگا، ویسے ہی تمھارے حکمراں ہوں گے۔
اب اس حدیث کا مطالعہ ایک آیت کی روشنی میں کیجیے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں: وَأَمْرُہُمْ شُورَى بَیْنَہُمْ (42:38)۔ یعنی وہ اپنا کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔ آیت اور حدیث میں فطرت کا ایک قانون بیان ہوا ہے۔ وہ یہ کہ حکومت ایک معاشرتی پروڈکٹ ہے۔ یعنی حکومت اصلاً معاشرے سے بر آمد ہوتی ہے، نہ کہ بیلٹ باکس سے۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ جس قسم کی حکومت چاہتے ہوں، ویسا معاشرہ بنانے کی کوشش کریں۔ یعنی پر امن انداز میں افراد پر عمل کرکے معاشرے کی تشکیل کرنا۔ اس معاملے میں صحیح ترتیب یہ ہے — پہلے پرامن انداز میں افراد کی تعمیر، پھر معاشرے کی تشکیل، پھر حکومت کا قیام۔
پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ 1947 میں جو پاکستان بنا تو تمام رہنماؤں نے یہ سمجھ لیا کہ ایک اسلام پسند قوم وجود میں آگئی ہے۔ اب کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ حکومت کی سیاسی زمامِ کار اس قوم کے حوالے کردی جائے۔ یہ مفروضہ سراسر بے بنیاد تھا۔ حقیقت کے اعتبار سے جو چیز وجود میں آئی تھی، وہ جغرافیہ کی زمینی تقسیم تھی، نہ کہ بامقصدقوم کی تشکیل۔ لیکن تمام لیڈروں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ بیلٹ باکس سے مطلوب حکومت نکال سکتے ہیں۔ مگر آدھی صدی سے زیادہ مدت کی سرگرم کوشش کے باوجود نتیجے کے اعتبار سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔
1971 میں میں نے پاکستان کا سفر کیا تھا۔ اس وقت میں نے لاہور میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی قیام گاہ پر دوبار ان سے ملاقات کی تھی۔دورانِ گفتگو میں نے کہا تھا کہ آپ کی اسٹریٹیجی نتیجہ خیز ہونے والی نہیں۔ میرے الفاظ میں آپ کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ مسلم لیگ نے اسلامی پاکستان کے نام پر مسلم قوم کے اندر جو ٹیمپو (tempo) پیدا کیا ہے، آپ اس کو اپنی تحریک کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ ٹیمپو کوئی پیدا کرے، اور اس کو استعمال کوئی دوسرا کرے۔ یہ ٹیمپو یا تو مسلم لیگ کے لیے استعمال ہوگا، یا وہ استعمال ہی نہیں ہوگا۔ اس وقت مولانا مودودی نے میری رائے سے اتفاق نہیں کیا، اور پوری طاقت کے ساتھ الیکشن میں کود پڑے۔ انھوں نے پاکستان میں چار بار باقاعدہ طور پر الیکشن میں حصہ لیا، مگر ہر بار الیکشن میں ان کو مکمل ناکامی ہوئی۔ ان کا مفروضہ ایک بے بنیاد مفروضہ ثابت ہوا۔
اہل پاکستان کے لیے اس معاملے میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ وہ اپنی جدو جہد کو الیکشن سے شروع نہیں کرسکتے۔ انھیں ہر حال میں یہ کرنا ہوگا کہ وہ سیاسی ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑیں، اور کامل معنوں میں پر امن انداز میں پاکستانی قوم کی تعمیر کریں، یعنی تعلیم اور تربیت کے ذریعے۔ پاکستان میں مطلوب حکومت ایک تیار شدہ معاشرے سے برآمد ہوگی، نہ کہ سیاسی ٹکراؤ سے۔