اسلام کے نام پر غیر اسلام

امت کے دورِ زوال کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: إِنَّ أَوَّلَ مَا یُکْفَأُ - قَالَ زَیْدٌ:یَعْنِی فی الْإِسْلَامَ - کَمَا یُکْفَأُ الْإِنَاءُ یَعْنِی الْخَمْرَ . فَقِیلَ:کَیْفَ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَقَدْ بَیَّنَ اللَّہُ فِیہَا مَا بَیَّنَ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:یُسَمُّونَہَا بِغَیْرِ اسْمِہَا فَیَسْتَحِلُّونَہَا(سنن الدارمی، حدیث نمبر 2145)۔ یعنی بے شک ( اسلام میں )پہلا (بگاڑ) اوندھاکرنے کی صورت آئے گا، جیسے برتن اوندھا کیا جاتا ہے، (اور وہ شراب ہوگی)۔ پوچھا گیا کہ ایسا کس طرح ہوگا، حالاں کہ اللہ نے (دین میں )اس کو بیان کردیا جیسا کہ بیان کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: لوگ اس کا نام بدل کر کچھ اور نام رکھ دیں گے، پھر وہ اس کو جائز کرلیں گے۔

اس حدیثِ رسول میں خمر (شراب ) کا لفظ علامتی معنوں میں آٰیا ہے۔ یعنی دورِ زوال میں امت کے اندر خواہش پرستی کا دور آجائے گا۔ لوگ دین پر چلنے کے بجائے، اپنی خواہشات پر چلنے لگیں گے۔ اگر کوئی چیز بظاہر ممنوع (prohibited) ہوگی، تو لوگ نام بدل کر اس کا اسلامی نام رکھ لیں گے، اور پھر وہ اس کو جائز کرلیں گے۔ مثلا قوم پرستی کا نام اسلامی حمیت، شادی کی مسرفانہ دھوم کا نام مسنون نکاح،کلچرل رواج کا نام دینی شناخت، وغیرہ۔

موجودہ زمانے میں اس بگاڑ کی ایک عام صورت وہ ہے، جس کا تعلق دعوت و تبلیغ سے ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی شکست خوردہ نفسیات کونہایت منظم (organized)انداز میں ایکسپلائٹ کیا جاتا ہے، اور اس کا نام رکھ دیا جاتا ہے دعوت و تبلیغ۔ کچھ لوگ جن کے اندر قوت کلام ہوتی ہے، اور جو مارکٹنگ (marketing)کا فن جانتے ہیں، وہ اس قسم کے مناظرہ (debate) کو ایک باقاعدہ پروفیشن کے طور پر اختیار کرلیتے ہیں، اور لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ دعوت و تبلیغ کا کام کررہے ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom