پریکٹکل وزڈم
عملی دانش مندی در اصل حسنِ تدبیر کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک روش جو بظاہر نظری اعتبار سے درست نہ ہو، اس کو دانش مندانہ تدبیر کے طور پر اختیار کرنا، تاکہ عملی اعتبار سے کوئی غیر مطلوب نتیجہ سامنے نہ آئے۔ مثلاً آپ کے اور کسی شخص کے درمیان پراپرٹی کو لے کر ایک نزاع قائم ہوجائے۔اس وقت آپ اس پر مقدمہ بازی کا طریقہ اختیار نہ کریں، بلکہ کچھ نقصان اٹھا کر آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کرلیں، تو یہ پریکٹکل وزڈم کی ایک مثال ہوگی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب حدیبیہ کا معاہدہ لکھا جانے والا تھا تو آپ نے لکھایا: ہَذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ، تو اس پر فریق ثانی نے اعتراض کیا کہ ہم آپ کو پیغمبر نہیں مانتے، آپ محمد بن عبد اللہ لکھیے۔ آپ اس پر راضی ہوگئے،اور معاہدے کے کاغذ پر لکھوایا: محمد بن عبداللہ(مسند احمد، حدیث نمبر3187)۔ یہ پریکٹکل وزڈم کی ایک مثال تھی۔
سلطان ٹیپو میسورکی ایک بڑی سلطنت کا مالک تھے۔ ان کا مقابلہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں سے ہوا۔ ٹیپو سلطان کے لیے اس وقت دو آپشن تھے۔ ایک یہ کہ وہ برٹش فوجوں سے صلح کرلے، اور دوسرا یہ کہ وہ برٹش فوجوں سے لڑائی کا طریقہ اختیار کرے۔ٹیپو سلطان نے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کیا۔ اس وقت اس نے یہ مشہور جملہ کہا تھا:شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 4 مئی، 1799 کو سرنگاپٹنم میں دورانِ جنگ اس کے قتل کے ساتھ اس کی حکومت بھی ختم ہوگئی۔ اس کے برعکس مثال حیدر آباد کے نظام کی ہے۔ ان کے سامنے بھی برٹش فوجوں سے لڑائی کا چیلنج تھا۔ مگر انھوں نے برٹش فوجوں سے لڑائی نہیں کی، بلکہ برٹش فوجوں سے صلح کرلی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حیدر آباد کی ریاست تقریباً دو سو سال تک قائم رہی، اور اس مدت میں اس نے بہت سے مفید کام کیے۔ اس مثال میں برٹش فوجوں سے صلح کرلینا، پریکٹکل وزڈم کا معاملہ تھا، اور برٹش فوجوں سے لڑجانا، پریکٹکل وزڈم کے خلاف ایک معاملہ تھا۔