اِدّعا کا دور ختم
موجودہ زمانے کو عقلیت کا دور (age of reason) کہا جاتا ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ادّعا (claim) کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ موجودہ زمانے میں صرف ان لوگوں کو قبولیت حاصل ہوسکتی ہے، جو عقل کے معیار پر اپنا جواز (validity) ثابت کریں، جن کے پاس صرف اِدًعا (claim) ہو، ان کو موجودہ زمانے میں صرف دماغی مریض کے اسپتال میں جگہ ملے گی، اور کہیں نہیں۔
موجودہ زمانے میں یہ کہنا کہ میں مجدد ہوں، میں مہدی ہوں، میں مسیح ہوں، وغیرہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی موجودہ زمانے کے حالات سے بالکل بے خبر ہے۔ وہ ایسی بولی بول رہا ہے، جس کو موجودہ زمانے میں کوئی قبول کرنے والا نہیں۔ ایسے لوگوں کا کیس خلافِ زمانہ روش (anachronism) کا کیس ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی موجودہ زمانے میں ناقابلِ قبول ہے کہ میں وقت کا نپولین ہوں، میں وقت کا نیوٹن ہوں، میں وقت کا آئنسٹین ہوں، وغیرہ۔ اسی طرح اس قسم کے القاب بھی غیر زمانی القاب ہیں کہ غزالی زماں، رازی دوراں، بیہقی وقت، یا یہ کہ فلاں شخص عہد ساز شخصیت کا حامل ہے، وغیرہ۔ یعنی موجودہ زمانے میں کوئی یہ کہے کہ میں ایسا ہوں، میں ویسا ہوں،یافلاں شخص وقت کا یہ ہے،اور فلاں شخص وقت کا وہ ہے، تو کوئی شخص اس کو قابلِ غور نہیں سمجھے گا۔
آج کا دور سائنسی استدلال کا دور ہے۔ آج کے زمانے میں بات کو فرد کے حوالے سے نہیں مانا جاتا ہے، بلکہ دلیل کے حوالے سے مانا جاتا ہے۔حدیث میں آیا ہے:مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُت (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018)۔یعنی جو آدمی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ بھلی بات کہے یا چپ رہے۔ آج کا انسان کہے گا کہ تمھارے پاس اگر مبنی بر عقل (reason based) کوئی بات ہے تو بولو، ورنہ چپ رہو۔