عارفانہ صحبت کیا ہے
سچی صحبت وہ ہے، جو معرفت کی صحبت بن گیا ہو۔مثلاً قرآن میں ایک واقعے کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ۔ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ (5:83-84)۔ یعنی جب وہ اُس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔
قرآن کے اس حصے میں ایک صحبتِ رسول کا ذکر ہے۔ اُس صحبتِ رسول میں کچھ لوگوں نے پیغمبر کی زبان سے قرآن کا ایک حصہ سنا۔ قرآن کے اس حصے کو سن کر ان کو معرفتِ رب کا تجربہ ہوا۔ یہ تجربہ اتنا گہرا تھا کہ وہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی صورت میں بہہ پڑا۔ یہ ایک عارفانہ سنت رسول کا بیان ہے۔ جس طرح رسول اللہ کی دوسری سنتیں قابلِ اتباع ہیں، اسی طرح آپ کی یہ سنت بھی اس قابل ہے کہ وہ اہلِ دین کی مجلسوں میں زندہ ہو۔قرآن کا سچا تذکرہ وہی ہے، جو لوگوں کے دل و دماغ کو ہلادے۔ جو سننے والے کے اندر معرفت کا طوفان پیدا کردے۔ جو آنسوؤں کی صورت میں آنکھوں کے راستے بہہ پڑے۔
انسان کے جسم سے بہت سی چیزیں نکلتی ہیں، مثلاً آنسو،پسینہ، وغیرہ۔ ان میں آنسو ایک مختلف چیز ہے۔ آنسو انسان کے جسم سے نکلنے والا سب سے زیادہ خالص (purest) مادہ ہے۔ آنسو ایک ایسی چیز ہے، جو صرف اس وقت نکلتا ہے، جب کہ آدمی کو معرفت کا تجربہ ہوجائے۔ آنسو بندے کی طرف سے اپنے رب کے لیے سب سے زیادہ خالص تحفہ (purest gift)ہے جو کبھی ردّ (reject) نہیں ہوتا۔اسی لیے آنسو صرف اللہ کے لیے ہے، آنسو کسی غیر اللہ کودینے کی چیز نہیں۔
قرآن میں مذکورہ واقعے میں اس لمحے کا ذکر ہے، جب کہ ایک متلاشی (seeker) انسان ایک صاحبِ معرفت انسان سے ملتا ہے۔ یہ ملنا کوئی سادہ ملنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ ذہنی طوفان (brainstorming) کا ایک لمحہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے، جب کہ دو سچے انسانوں کے درمیان ربانی ملاقات کا عمیق تجربہ ہوتا ہے۔ اس ملاقات میں ایک تیسری ہستی شامل ہوجاتی ہے، اور وہ اللہ رب العالمین کے فرشتے ہیں۔ فرشتوں کی شمولیت کی بنا پر یہ ملاقات ایک ربانی قربت کا لمحہ بن جاتی ہے۔ اس ربانی ملاقات کے دوران دینے اور پانے کاایسا تجربہ مل جاتا ہے، جس میں تبادلے کا ذریعہ الفاظ نہ ہوں، بلکہ آنسو ہوں۔ جب کہ دلوں کے دروازے کھل جائیں، اور دماغ کی کھڑکیاں اس طرح کھل جائیں کہ اس کا کوئی دروازہ بند نہ رہے۔
یہ رسول اللہ کی ایک صحبت کا واقعہ ہے، جو قدیم مدینہ میں پیش آیا۔ یہ واقعہ صرف مقدس کلام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک سنتِ رسول کا کیفیاتی بیان ہے۔ جس طرح رسول اللہ کی دوسری سنتیں قابلِ اتباع ہیں، اسی طرح آپ کی عارفانہ سنتیں بھی اس قابل ہیں کہ وہ اہلِ دین کی مجلسوں میں زندہ ہوں۔ایک صاحبِ معرفت عالم کی صحبت ایک زندہ صحبت ہے۔ وہ حاضرین کے اندر ذہنی طوفان (brainstorming) کا سبب بن سکتی ہے۔
آپ کسی عالم کی کتاب پڑھیں، اس سے بھی آپ کو فائدہ ہوگا۔ لیکن جب آپ ایک سچے عالم کی صحبت میں بیٹھتے ہیں، تو یہ بیٹھنا، آپ کے لیے ایک زندہ تجربہ بن جاتا ہے۔ کتاب اگر آپ کو معلومات دیتی ہے تو ایک عارف کی صحبت سے آپ کو حکمت (wisdom) کا خزانہ مل سکتا ہے۔کتاب کا مطالعہ آپ کی واقفیت میں اضافہ کرتا ہے۔ لیکن ایک عارف کی صحبت آپ کو بتاتی ہے کہ معرفت کا زلزلہ کیا چیز ہے۔ سچی صحبت وہ ہے، جو معرفت کی صحبت بن جائے، جس سے آپ کو رزقِ رب ملنے لگے۔
رزقِ رب
مریم بنت عمران (وفات 100یا 120 ء)ایک ربانی خاتون تھیں، وہ ایک یہودی خاندان میں فلسطین میں 20 ق م میں پیدا ہوئیں۔ان کے تذکرےکے ضمن میں قرآن میں بتایا گیا ہے فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنْبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا وَکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقًا قَالَ یَا مَرْیَمُ أَنَّى لَکِ ہَذَا قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَرْزُقُ مَنْ یَشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ (3:37)۔ پس اس کے رب نے اس کو اچھی طرح قبول کیا اور اس کو عمدہ طریقے سے پروان چڑھایا اور زکریا کو اس کا سرپرست بنایا۔ جب کبھی زکریا ان کے پاس حجرے میں آتا تو وہ وہاں کچھ رزق پاتا۔ اس نے پوچھا: اے مریم، یہ چیز تمھیں کہاں سے ملتی ہے۔ مریم نے کہا یہ اللہ کے پاس سے ہے۔ بیشک اللہ جس کو چاہتا ہے بےحساب رزق دے دیتا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں رزق کا لفظ مادی رزق کے معنی میں نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جاڑے کے موسم میں گرمی کا رزق اور گرمی کے موسم میں جاڑے کا رزق۔ بلکہ ا س کا مطلب یہ ہے کہ معرفت کا رزق، اللہ کی دریافت کا رزق۔ حضرت زکریا کا سوال تعجب کے طور پر نہیں ہوتا تھا، بلکہ شکر کے طور پر ہوتا تھا۔
اس رزق سے مراد وہ رزق ہے، جو اللہ کی یاد سے انسان کو ملتا ہے، جو آخرت کی یاد سے انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ جو اس یاد سے انسان کو ملتا ہے، جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ، الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا (3:190-91)۔
عارفانہ صحبت اس صحبت کا نام ہے، جس میں صرف اللہ کی اور آخرت کی باتیں ہوں، جس میں صرف جنت اور جہنم کی باتیں ہوں۔ جس صحبت سے اللہ رب العالمین کی یاد دلوں میں آئے، جو انسان کے دل و دماغ کو اللہ رب العالمین کی باتوں سے بھر دے۔