عقل سے محرومی

امت پر جب عمومی بے عقلی کا دور آئے گا تو قانونِ دفع ( البقرۃ، 2:251) کا تقاضا ہوگا کہ اللہ اپنے ایک خاص بندے کو بھیجے جو کامل عقل سے بہرہ ور ہوگا، اور اللہ کی خصوصی نصرت سے سچائی کو کھولے گا،جو کہ صحیح کو صحیح بتائے گا،اور غلط کا غلط ہونا واضح کرے گا۔ اللہ کا یہ منصوبہ ایک حدیث رسول میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، جیسا کہ وہ پہلے ظلم و زیادتی سے بھری ہوئی تھی(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4282)۔

اس حدیث میں عدل سے مراد عدل کا نظام نہیں ہے۔ اسی طرح ظلم سے مراد ظلم کا نظام نہیں ہے۔ بلکہ عدل سے مراد عدل کی بات ہے، اور ظلم سے مراد ظلم کی بات ہے۔ اِسی طرح ارض سے مراد ساری زمین (globe) نہیں ہے بلکہ ارض سے مراد ارضِ مسلم ہے۔ یعنی مسلم دنیا میں جب ہر طرف بےعقلی کی باتیں ہونے لگیں گی، تو وہ انسان لوگوں کو ہر پہلو سے عقل کی بات بتائے گا۔ وہ نظریاتی اعتبار سے، نہ کہ عملی اعتبار سے، مسلم دنیا کو بتائے گا کہ عقل کے مطابق سوچنا کیا ہے اورعقل کے مطابق کرنا کیا ہے۔ وہ انسان کوئی حکومت نہیں قائم کرے گا بلکہ وہ ایک نظریاتی دور لائے گا۔

یہ کوئی پر اسرار بات نہیں ہے، بلکہ یہ فطرت کا نظام ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ ہر بار جب لوگوں کی سوچ بگڑ جاتی ہے، اوراس کے نتیجے میں عمل میں بگاڑ آجاتا ہے، تو اس وقت اللہ کی توفیق سے ایسے افراد اٹھتے ہیں، جو لوگوں کو صحیح طرز فکر دیں، جو لوگوں کی کنڈیشنڈ تھنکنگ کو کنڈیشننگ سے پاک کریں، اور صحیح انداز میں سوچنے والا بنائیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ انسانی سوچ خواہ کتناہی بگڑ جائے لیکن انسان کا ضمیر (conscience) پھر بھی زندہ رہتا ہے۔ یہ ضمیر انسانی معاشرے کے بگاڑ کو کلی بگاڑ بننے نہیں دیتا۔ ایک حد کے بعد ضمیر جاگ اٹھتا ہے، اور معاشرے کے اندر اینٹی بگاڑ کا پراسس شروع ہوجاتا ہے۔جو ہر رکاوٹ کے باوجود فطرت کی رہنمائی میں جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ بگاڑ کے بعد اصلاح کا دور آجاتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom