بہت دن کم رہا
میر تقی میر ایک اردو شاعر تھے۔وہ آگرہ میں 1723 ء میں پیدا ہوئے، اور لکھنؤ میں 1810ء میں 87 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کا ایک شعر یہ ہے:
صبح گزری شام ہونے آئی میر تو نہ چیتا اوربہت دن کم رہا
یہ شعر میں نے اپنی نوجوانی کی عمر میں پڑھا تھا۔ اس وقت میں یوپی کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ اب میں خود بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر اسی تجربے سے گزر رہا ہوں، جو تجربہ اردو شاعر کو پیش آیا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے کہ بڑھاپے کی بات کو کہنایا لکھنا اور چیز ہے، لیکن بڑھاپے کی عمر کا تجربہ کرنا، بالکل مختلف چیز ہے۔ نوجوانی کی عمر میں جب میں نے یہ شعر پڑھا تھا، تو یہ صرف ایک شعر معلوم ہوتا تھا۔ لیکن آج جب میں اس شعر کو پڑھتا ہوں، تو وہ ایک حقیقت معلوم ہوتا ہے۔ اب واقعۃً یہ محسوس ہوتا ہے کہ لمبی عمر گزرگئی، اور اب کرنے کے لیے بہت کم وقت باقی رہا۔
ایک بار بیرونی سفر کے دوران میری ملاقات سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس ہنسراج کھنہ سے ہوئی، وہ ریٹائر ہونے کے بعد دلی میں رہتے تھے، اور 2008 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ دورانِ سفر ان سے جو باتیں ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ انھوں نے بتایا کہ جے آر ڈی ٹاٹا (1904-1993)بڑھاپے کی عمر میں میرے پاس قانونی مشورے کے لیے کبھی کبھی آتے تھے۔ ایک بار جے آر ڈی ٹا ٹا نے ان سے کہا تھا: کھنہ صاحب، مُولیہ (capital)تو کھا چکا ہوں، اب بیاج پر جی رہا ہوں۔
بے خبر انسان کے لیے موت صرف زندگی کے خاتمے کا نام ہے، لیکن جو انسان حقیقت سے باخبر ہو، وہ سوچے گا کہ زندگی کے پچھلے دن تو میں کھو چکا، اب زندگی کے چند دن جو باقی ہیں، کیا میں ان کو اویل کرسکتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ میں غفلت کی زندگی کو اپنے آخری دنوں میں ہوشمندی کی زندگی بنا لوں۔