تخلیق کے دو ادوار
تاریخ بتاتی ہے کہ انسان پر ترقی کے دو دور گزرے ہیں۔ ایک وہ ترقی جو فطرت کے دائرے میں انسان کو حاصل ہوئی۔ دوسری وہ ترقی جو بعد کو انسان نے فطرت کے اندر چھپی ہوئی طاقتوں کو دریافت کرکے حاصل کیا۔ پہلے دور کو تخلیقِ اول (first creation)کا دور کہا جاسکتا ہے۔ دوسرے دور کو تخلیقِ ثانی (second creation) کا دور کہنا درست ہوگا۔ یہ دونوں دورخود تخلیق کا حصہ ہیں۔ لیکن پہلادور اگر تخلیق کا براہ راست حصہ تھا، تو دوسرا دور تخلیق کا بالواسطہ حصہ۔
تخلیق کے ان دونوں ادوار کا ذکر قرآن کی اس آیت میں آیا ہے: وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیرَ لِتَرْکَبُوہَا وَزِینَةً وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (16:8)۔ یعنی اور اللہ نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لئے بھی، اور وہ اور بھی چیزیں پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے:
And (He has created) horses, mules and donkeys so that you may ride them and that they may serve as means of adornment (for you) as well and He will create that you do not know.
اس آیت کےدو حصے ہیں۔ اس کے پہلے حصے میں تین فطری چیزوں کا ذکر ہے، گھوڑا، خچر، اور گدھا۔ان تینوں چیزوں کا ذکر یہاں علامتی معنی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو جب پیدا کیا تو ابتدائی دور میں اس کو ہر قسم کی سہولتیں فطرت کے دائرے میں عطا کی۔مثلاً سواری اور باربرداری کے لیے حیوانات، پانی کے لیے دریا اور چشمہ کا پانی، غذا کے لیے زمین کی فطری پیداوار، وغیرہ۔ یہ گویا تخلیقِ اول کا دور تھا۔ قرآن کی آیت کے مطابق، اسی کے ساتھ اللہ نے زمین کے اندر بہت سی اور چیزیں بالقوۃ (potential) طور پر رکھ دیں۔ اس کو آج کل کی زبان میں ٹکنالوجی کہا جاتا ہے۔ ٹکنالوجی زندگی کے تمام ترقیاتی سہولتوں کو کوَر (cover)کرتی ہے۔ مگر یہ ٹکنالوجی قانونِ فطرت کی شکل میں پوشیدہ طور پر ہماری دنیا میں موجود تھی۔ انسان کو اللہ نے عقل دی۔ عقل کے ذریعہ انسان نے فطرت کے ان قوانین کو دریافت کرکے ان کو قابلِ استعمال بنایا۔ یہاں تک کہ ترقی کرتےکرتے ٹکنالوجیکل تہذیب (technological civilization) وجود میں آئی۔ اس ٹکنالوجیکل تہذیب کو تخلیق کا دوسرا دور یا تخلیقِ ثانی کہا جاسکتا ہے۔
اس ٹکنالوجیکل تہذیب میں بیک وقت دو پہلو شامل تھے۔ ایک پہلو یہ تھا کہ اس کے ذریعےانسا ن کو نئی مادی سہولتیں حاصل ہوئیں۔ مثلاً گھوڑے کی جگہ سواری کے لیے موٹر کار اور ہوائی جہاز، وغیرہ۔ اسی کے ساتھ تخلیق ثانی کا ایک اور زیادہ اہم پہلو تھا۔ وہ یہ کہ اس کے ذریعے خدا کے دین پر عمل کرنا زیادہ وسیع تر دائرے میں ممکن ہوگیا۔ تہذیب کا یہ دوسرا پہلو وہ ہے،جس کو دورِ اول کے اہلِ ایمان کی ایک قرآنی دعا میں مستقبل کی زبان میں اس طرح بیان کیا گیا تھا: رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا َ (2:286)۔ یعنی اے ہمارے رب، ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جیسا بوجھ تو نے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔
دین کے اعتبار سے تہذیبی ترقیوں کے دو پہلو تھے۔ ایک، نظریاتی پہلو اور دوسرا، عملی پہلو۔ نظریاتی پہلو یہ تھا کہ تہذیب کے دور میں جو سائنسی دریافتیں ہوئیں، وہ نئی قوت کے ساتھ اسلام کی علمی تصدیق بن رہی تھیں۔ تہذیب کے اس پہلو کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں پیشگی طور پر کیا گیا تھا: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی مستقبل میں ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔
قرآن اللہ کے دین کا مستند اعلان ہے۔ قرآن ساتویں صدی عیسوی میں نازل ہوا۔ قرآن میں دینِ خداوندی کے صداقت کے دلائل موجود تھے۔ مگر وہ بظاہر سادہ فطری اسلوب میں تھے۔ اللہ نے مادی دنیا کے اندر بہت سے امکانات قوانینِ فطرت (laws of nature) کی صورت میں پوشیدہ طور پر رکھ دیے تھے۔ مثلاً پانی کے اندر اسٹیم پاور، وغیرہ۔ اسی کے ساتھ انسان کو عقل دی، جس کے ذریعے وہ ان قوانین ِفطرت کو دریافت کرے، اور ان کو اپنے لیے استعمال کے قابل بنائے۔ ان قوانین کو دریافت کرکے ایک نئی تہذیب (civilization)کو وجود میں لانے کے لیے لمبی مدت درکار تھی۔ اس عمل پر تقریباً ہزار سال گزرگئے۔ یہ عمل مختلف مراحل کے ساتھ جاری رہا، یہاں تک کہ وہ چیز وجود میں آئی جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔
حضرت نوح نے قدیم زمانےمیں جب ایک بڑی کشتی بنائی تو اس کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:فَأَوْحَیْنَا إِلَیْہِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا (23:27)۔ یعنی ہم نے اس کو وحی کی کہ تم کشتی تیار کرو ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً یہی معاملہ جدید تہذیب کی تشکیل کے ساتھ بھی پیش آیا۔ حضرت نوح نےملائکہ کی مدد سے کشتی بنائی تھی۔ اسی طرح دورِ جدید میں انسانوں نے اللہ کی خصوصی رہنمائی (divine inspiration) کے تحت تہذیب کی تشکیل کی۔ گویا اللہ نے انسان کو الہامی زبان میں دوبارہ یہ کہہ کر حکم دیا تھا:اصنع الحضارۃ باعیننا و وحینا۔ یعنی ہماری نگرانی میں اورہمارے انسپریشن (inspiration) کے تحت تہذیب کی تشکیل کرو۔اسی کو جدید اصطلاح میں سرنڈیپٹی (serendipity) کہا جاتا ہے۔
تہذیب کی تشکیل کا یہ کام ایک بے حد تخلیقی کام ہے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ دوسری قوموں کو اس کی تعمیر و تشکیل میں شامل کیا جائے۔ اس واقعے کا ذکر پیشگی طور پر حدیث میں بیان کردیا گیا تھا۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: اللہ تعالی اسلام کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جو اہلِ دین میں سے نہ ہوں گے(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔
نبوت محمدی کا ظہور
پیغمبرِ اسلام کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اول میں ہوا۔ خدا کے منصوبہ کے مطابق، یہ ایک فرد (خاتم النبیین) کے ظہور کا معاملہ نہ تھا۔ بلکہ ایک نئے تاریخی دور کو پیدا کرنے کا معاملہ تھا۔ یہ انقلابی دور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے، بیسویں صدی عیسوی کے آخر میں مکمل ہوا۔ اس انقلاب کے پہلے مرحلے میں جو رول مطلوب تھا، وہ زیادہ تر اہل ایمان کے ذریعے وجود میں آیا۔ وہ رول یہ تھا کہ اسلام کو سماجی اور سیاسی اعتبار سے استحکام (stability)حاصل ہوجائے، قرآن محفوظ ہوجائے، امتِ مسلمہ کی تشکیل عمل میں آجائے، علوم ِاسلامی کی تدوین وقوع میں آجائے، دینِ توحید کا تسلسل اسی طرح قائم ہوجائے جس طرح اس سے پہلے دینِ شرک کا تسلسل تاریخ میں قائم ہوگیا تھا، وغیرہ۔
اس سلسلے میں دوسرا کام جو مطلوب تھا، وہ دینِ اسلام کی عالمی اشاعت تھی۔ دینِ اسلام کی اس عالمی اشاعت کے لیے ابتدائی زمانےمیں حالات مساعد نہ تھے۔ تہذیب ِجدید نے بالواسطہ طور پر اس کام کو انجام دیا۔ تہذیبِ جدید کے ذریعے دنیا میں ایک طرف پرنٹنگ پریس اور مواصلاتی دور (age of communication) وجود میں آیا، دنیا میں مکمل معنوں میں مذہبی آزادی کا دور آیا، فطرت (nature)میں موافق اسلام چھپے ہوئے حقائق دریافت ہوئے اور عمومی طور پر وہ ہر ایک کی دسترس میں آگئے، دنیا میں پہلی بار کامل معنوں میں کھلاپن (openness) کا دور آیا، دنیا میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ ہر آدمی کے لیے مواقع (opportunities) کے دروازے مکمل طور پر کھل گئے۔ صرف ایک شرط کے ساتھ کہ آدمی تشدد (violence) سے مکمل طور پر پرہیز کرے۔
اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ دنیا میں کمیو نی کیشن کا دور آیا، فاصلہ کا مسئلہ ختم ہوگیا۔ اور بعید مقام تک پیغام رسانی آخری حد تک آسان اور قابل عمل ہوگئی۔ یہ پہلو دعوت کے اعتبار سے بے حد اہم تھا۔ چنانچہ قرآن میں اس آنے والے انقلاب کی طرف پیشگی طور پر اشارہ کردیا گیا تھا۔ یہ اشارہ اس واقعہ کی صورت میں تھا جس کو قرآن میں اسراء (بنی اسرائیل،17:1) کہا گیا ہے۔
مکی دور کے آخری زمانے میں وہ واقعہ پیش آیا، جب کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو پراسرار طور پر مکہ سے یروشلم لے جایا گیا۔ مکہ سے یروشلم اور پھر یروشلم سے مکہ واپس لایا گیا۔ یہ سفر دو طرفہ اعتبار سے تقریباً 4000 کلو میٹر کا سفر تھا۔قرآن میں اس سفر کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَى بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا (17:1)۔ یعنی پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔
اس سفر میں آپ کو جو نشانی (sign) دکھائی گئی وہ یروشلم کی کوئی چیز نہ تھی، بلکہ اس سے مراد وہی چیز تھی جس کو قرآن میں اسرا کہا گیا ہے۔ یعنی مکہ اور یروشلم کے درمیان تیز رفتار سفر۔ اس تیز رفتار سفر کا تجربہ اُس وقت آپ کو علامتی طور پر کرایا گیا۔ اس کا مقصد پیشگی طور پر اُس واقعے کو بتانا تھا، جو آپ کے بعد تاریخ میں مواصلاتی دور (age of communication) کی صورت میں پیش آنے والا تھا۔ یہ مواصلاتی دور جو جدید تہذیب کے ذریعے دنیا میں آیا،وہ اسلام کے دعوتی مشن کے لیے ایک بہت بڑا موافق پہلو تھا۔ اس انقلاب نے عملی طور پر اس بات کو ممکن بنادیا کہ اسلام کا پیغام تیز رفتار ذرائع سے ساری دنیا میں پہنچایا جاسکے۔
اسلام کا مطلوب
اسلام کا اصل مطلوب کوئی نظام قائم کرنا نہ تھا، اور نہ اسلام کا نشانہ یہ تھا کہ ساری دنیامیں اسلام کی سیاسی حکومت قائم کی جائے۔ یہ سب مبتدعانہ تصورات (innovated concepts) ہیں، جو بعد کے دور میں پیدا ہوئے۔ اسلام کا اصل نشانہ صرف ایک تھا، اور وہ وہی ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ(4:165)۔ یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والے اور آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت باقی نہ رہے۔
اسلام کا یہ دعوتی نشانہ قدیم زمانے میں صرف محدود طور پر انجام دینا ممکن تھا۔ بعد کو ترقیات کے دور میں یہ امکان پوری طرح وقوع میں آنے والا تھا،تاکہ اسلام کا یہ نشانہ عالمی سطح پر بلا روک ٹوک انجام پائے۔ اس حقیقت کو قرآن وحدیث میں مختلف الفاظ میں پیشگی طور پر بتادیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: لَا یَبْقَى عَلَى ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللہُ کَلِمَةَ الْإِسْلَامِ (مسند احمد، حدیث نمبر23814)۔ یعنی زمین کی سطح پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر یہ کہ اللہ اس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کردے گا۔
اسلام اکیسویں صدی میں
اب اسلام کی تاریخ اکیسویں صدی میں ہے۔ آج کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اسلام کے دعوتی مشن کی منصوبہ بندی (planning) جدید حقائق کی روشنی میں کی جائے۔ جدید پیدا شدہ مواقع (opportunities) کو پوری طرح اسلام کے پرامن عالمی مشن کے لیے استعمال کیا جائے۔ قرآن میں اعلان کیا گیا تھا:تَبٰرَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔ یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لئے ڈرانے والا ہو۔ اس آیت کے مطابق، یہ مطلوب تھا کہ قرآن کے پیغام کو تمام اہلِ عالم تک پہنچایا جائے، اور یہ کام تمام قوموں کی اپنی قابل فہم زبان میں انجام دیا جائے۔ جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ ُ (14:4)۔ یعنی اور ہم نے جو پیغمبر بھی بھیجا اس قوم کی زبان میں بھیجا، تاکہ وہ ان سے بیان کردے۔
قرآن کا یہ نشانہ سفر کرتے ہوئے اب اکیسویں صدی عیسوی میں اپنے آخری دور میں پہنچ گیا ہے۔اب ضرورت یہ ہےکہ قرآن کو تمام قوموں کی قابل فہم زبانوں میں ترجمے کرکے ان کو تمام لوگوں تک پہنچایا جائے۔ دسمبر 2015 میں راقم الحروف کا ایک سفر کناڈا کے لیے ہوا تھا۔ وہاں میں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے اس پہلو کا ذکر کیا اور کہا:
What a thrilling idea that in the 21st century, we are in a position to complete the unfinished target of the Quran!
جس طرح خالص دینی معاملات میں اصلاح کا آغاز توبہ سے ہوتا ہے، اُسی طرح قومی اور سیاسی زندگی میں بھی کوئی نیا بہتر آغاز رجوع و اعتراف کے ذریعے ہوتا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کو مانے بغیر مستقبل کی کامیاب منصوبہ بندی ممکن نہیں ہوتی، اور اِس معاملے میں کوئی استثناء نہیں۔