دین کا نقطۂ آغاز
قرآن کی پہلی آیت یہ ہے:الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (1:2)۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ دین کا نقطۂ آغاز اللہ رب العالمین کی دریافت پرمبنی ہے۔ یعنی اہلِ دین کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اللہ رب العالمین کی معرفت حاصل کریں۔ اس کے بعد وہ دینی زندگی کی تعمیر کریں۔ اس ترتیب کو اختیار کرنے سے انسان کے اندر حقیقی معنی میں دینی شخصیت بنے گی۔ اس کے برعکس، کوئی دوسری ترتیب اختیار کی جائے تو دینی شخصیت کی تعمیر و تشکیل نہ ہوسکے گی۔
انسان کی حکومت کا جب آپ تصور کرتے ہیں، تو آپ کے ذہن میں یہ نقشہ آتا ہے کہ ایک بااقتدار صدر یا وزیر اعظم ملک کی زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے، اور پورے ملک کو اپنے نقشے کے مطابق کنٹرول کررہا ہے۔
یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر اور کامل صورت میں اللہ رب العالمین کا ہے۔ اللہ اس دنیا کا حاکم اعلیٰ ہے۔ وہ پوری دنیا، خواہ وہ مادی دنیا ہو یا انسانی دنیا، اس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ لیکن دونوں میں ایک فرق ہے۔ جہاں تک مادی کائنات کا معاملہ ہے، اللہ رب العالمین اس دنیا کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا کے معاملے میں جزوی طور پر انسان کو آزادی دے دی گئی ہے۔ انسان سے یہ مطلو ب ہے کہ وہ خود انضباطی (self-imposed discipline) کے تحت اللہ رب العالمین کے آگے جھک جائے۔ انسان کو حکومت الٰہیہ قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنے آپ کو حکومت الٰہیہ کا پابند بنانا ہے۔
دین کا یہی آغاز امتِ مسلمہ سے مطلوب ہے۔ بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مدرسوں میں دین کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں درست ترتیب کے ساتھ کام نہیں ہو رہا ہے۔ یعنی مدارس کا طریقہ ہے مسائل کی پابندی سکھانا، جب کہ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا نقطۂ آغاز معرفتِ رب ہے، یعنی اللہ رب العالمین کی دریافت، اور انسانی شخصیت کی تعمیر۔