امن کا راستہ
جن علاقوں میں تشدد (violence) کے واقعات ہورہے ہیں، ان علاقوں کے لیڈر یہ کہتے ہیں کہ اس علاقے میں امن اس وقت قائم ہوگا جب کہ اس علاقے کے عوام کی جائز خواہشات کو پورا کیا جائے۔ جب تک اس علاقے کے عوام کو ان کا حق نہ دیا جائے، وہاں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔
یہ بات جو کہی جاتی ہے، وہ گرامر کے اعتبار سے درست ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ بالکل بے بنیاد ہے۔ تاریخ میں کبھی اس قسم کا امن قائم نہیں ہوا۔ تاریخ میں اگر کبھی امن قائم ہوا ہے، تو وہ ہمیشہ عوامی مطالبات کو چھوڑنے کی بنیاد پر ہوا ہے، نہ کہ ان کو پانے کی بنیاد پر۔
اسلام کے دورِ اول میں پیغمبرِ اسلام اور مکہ کے قریش کے درمیان نزاع قائم تھی۔ دس سالہ ناجنگ معاہدہ، صلحِ حدیبیہ کے ذریعے اس نزاع کا خاتمہ ہوا، اور علاقے میں امن قائم ہوا۔ مگر یہ امن قریش کی شرطوں پر قائم ہوا تھا، نہ کہ اہل ایمان کی شرطوں پر۔ حتی کہ اس امن کو پانے کے لیے پیغمبرِ اسلام کو معاہدہ کی دستاویز سے بوقتِ معاہدہ رسول اللہ کا لفظ مٹانا پڑا تھا۔ امن کبھی اپنی شرطوں کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ وہ فریقِ مخالف کی شرطوں کو مان کر ہوتا ہے۔
آج کی دنیا میں جہاں جہاں تشدد کے واقعات ہورہے ہیں، وہ سب اسی لیے ہورہے ہیں کہ لوگ اس شرط کو نہیں جانتے، وہ امن کے لیے اس شرط کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی مانگ کو پورا کیا جائے۔ یہ ایک ایسی شرط ہے، جو پر جوش تقریروں میں تو دہرائی جاسکتی ہے، لیکن حقیقت کی دنیا میں ان کو قائم کرنا ناممکن ہے۔ ایسا امن نہ دنیا میں کبھی قائم ہوا، اور نہ وہ کبھی قائم ہوسکتا ہے، جن شرطوں کو پورا کرنا رسول اللہ کے زمانے میں ممکن نہیں ہواتھا، اس کو اب کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امن کا قیام جہاد و قتال کے ذریعے کبھی نہیں ہوتا۔ امن کا قیام ہمیشہ حقیقتِ واقعہ کے اعتراف (acceptance of reality) کی بنیاد پر ہوتا ہے۔حقیقت کو حقیقت کے ذریعے بدلا جاسکتا ہے، نہ کہ پرجوش نعروں کے ذریعے۔