اقفالِ قلب
قرآن کی ایک تعلیم سورہ محمد میں ان الفاظ میں آئی ہے:أُولَئِکَ الَّذِینَ لَعَنَہُمُ اللَّہُ فَأَصَمَّہُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَہُمْ۔أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا (47:23-24)۔ یعنی یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنی رحمت سے دور کیا، پس ان کو بہرا کردیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا۔ کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔
یہاں قلب سے مراد عقل ہے، اور اقفال سے مراد وہ چیزیں ہیں، جو انسان کے لیے صریح غور وفکر میں مانع بن جاتی ہیں، مثلاً جمود، تعصب، وغیرہ۔ دل کے لیے سب سے بڑا قفل متعصبانہ سوچ (biased thinking) ہے۔ اگر آدمی کسی ایسے ماحول میں دیر تک رہے، جہاں اس کی تربیت اس طرح ہوجائے کہ وہ موضوعی ذہن (objective mind) کے ساتھ چیزوں کو نہ دیکھ سکے۔ متعصبانہ سوچ میں وہ کنڈیشنڈ (conditioned) ہوجائے تو وہ ایسا ہوجائے گا، گویا کہ اس کی عقل پر ایک تالا لگ گیا ہے۔ وہ چیزوں کو کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کے قابل نہیں رہا ہے۔
متعصبانہ طرزِ فکر دراصل کنڈیشنڈ طرزِ فکر کا نام ہے۔ آدمی جس ماحول میں دیر تک رہے، اس ماحول کے تحت اس کے اندر بہت متاثر طرز فکر بن جاتا ہے۔ اس کا ذہن صرف ایک رخ پر سوچنے لگتا ہے، اس کا ذہن دوسرے رخ پر سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔ اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنا محاسبہ کرکے اپنی کمزوری کو دریافت کرنا، اور اس کو بے رحمی کے ساتھ توڑ کر اپنے آپ کو فطرت پر قائم کرنا۔
دلوں کا قفل ماحول کے اثر سے لگتا ہے۔ اس قفل کو کھولنے کا ایک ہی ذریعہ ہے، اور وہ محاسبہ (introspection) ہے۔ غیر جانبدارانہ محاسبہ واحد چیز ہے، جس کے ذریعے آدمی اپنے آپ کو اقفالِ قلب سے بچا سکے۔ دوسری کوئی چیز انسان کو اس مسئلے سے بچانے والی نہیں۔ محاسبہ کیا ہے۔یہ ایک لفظ میں خود اپنے خلاف سوچنے(anti-self thinking) کا نام ہے۔