آدابِ تنقید
تنقید (criticism) ایک جائز فعل ہے۔ ہر شخص کو یہ حق ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص پر تنقید کرے۔ لیکن تنقید کا ایک متعین اصول ہے۔ متعین اصول کے مطابق جو تنقید کی جائے، وہ ایک جائز تنقید ہے۔ لیکن جس تنقید میں متعین اصول کی رعایت نہ ہو، وہ تنقید نہیں، بلکہ تنقیص ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق، تنقید بلاشبہ جائز ہے، لیکن تنقیص بلاشبہ ایک ناجائز فعل ہے۔
جائز تنقید اور ناجائز تنقید یا تنقیص میں کیا فر ق ہے۔ ناجائز تنقید یہ ہے کہ آپ کسی شخص کے اوپر تنقید کریں، لیکن یہ تنقید آپ اپنے الفاظ میں کریں۔ یعنی ایسا ہو کہ تنقید تو دوسرے کی ہو، اور الفاظ اس کے اپنے ہوں تو ایسی تنقید جائز نہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر آپ ایسا کریں کہ کسی شخص کے اوپرتنقید کریں، تو اس کے اپنے ثابت شدہ الفاظ پر مبنی ہو۔ایسی تنقید ایک جائز تنقید ہے۔مثلاً آپ کسی شخص کے بارے میں یہ کہیں کہ اس کے اندر قول و فعل کا تضاد ہے، تو یہ تنقید صرف اس وقت جائز ہوگی، جب کہ آپ زیر تنقید شخص کے قول یا فعل سے اس قسم کا ثابت شدہ حوالہ پیش کریں۔ اگر آپ کے پاس ثابت شدہ حوالہ نہ ہو تو آپ کو ایسی تنقید کرنے کا ہر گز کوئی حق نہیں۔
اسی طرح اگر آپ کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ قرآن و حدیث کا نام لیتا ہے، لیکن بات خود اپنی پیش کرتا ہے تو آپ کو اس روش کی کم از کم ایک متعین اور محدد (specific)مثال پیش کرنی ہوگی۔ ثابت شدہ مثال کے بغیر ایسی تنقید صرف ایک بے بنیاد الزام ہے، وہ ہرگز تنقید نہیں۔
اسی طرح اگر آپ کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ اس کے پاس ڈبل معیار ہوتا ہے، ایک معیار اپنے لیے، اور دوسرا معیار دوسروں کے لیے۔ تو یہ تنقید بھی صرف اس وقت ایک جائز تنقید ہے، جب کہ زیر بحث شخص کے بارے میں ایک ثابت شدہ مثال دیں، ایسی مثال جو ناقابل تردید حوالوں پر مبنی ہو۔ صرف ایسی تنقید، تنقید ہے۔ جس تنقید کے ساتھ ایسا ثبوت موجود نہ ہو، وہ سبّ شتم اور عیب جوئی اور الزام تراشی ہے، نہ کہ واقعی معنوں میں ایک جائز تنقید۔