حاکم کی خیرخواہی
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:مَنْ أَرَادَ أَنْ یَنْصَحَ لِسُلْطَانٍ بِأَمْرٍ، فَلَا یُبْدِ لَہُ عَلَانِیَةً، وَلَکِنْ لِیَأْخُذْ بِیَدِہِ، فَیَخْلُوَ بِہِ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْہُ فَذَاکَ، وَإِلَّا کَانَ قَدْ أَدَّى الَّذِی عَلَیْہِ لَہُ (مسند احمد، حدیث نمبر 15333)۔ یعنی جو یہ چاہے کہ وہ صاحبِ امر کو اس کے کسی فعل پر خیرخواہانہ نصیحت کرے تو وہ علانیہ طور پر ایسانہ کرے، بلکہ وہ اس کا ہاتھ پکڑے،اور اس کو تنہائی میں لے جائے۔ اگر حاکم اس کی بات کو قبول کر لے تو بہتر ہے، ورنہ اس نے حاکم کے تعلق سے اپنا فرض ادا کردیا۔
حاکم کو اس کی کسی غلطی پر نصیحت کرنا،بلاشبہ ایک اچھا کام ہے۔ لیکن انسان کو چاہیے کہ وہ ایسا کام ہمیشہ نتیجے کو دیکھ کر کرے۔ اگر وہ علانیہ طور پر صاحبِ امر کو نصیحت کرے گا تو عین ممکن ہے کہ وہ بھڑک اٹھے، اور ایسا کوئی اقدام کرے جو دونوں کے درمیان ٹکراؤ کا سبب بن جائے، اور نصیحت کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) بن جائے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ نتیجے کو ملحوظ رکھتے ہوئے نصیحت کرے۔ نتیجہ خیز نصیحت ایک ثواب کا کام ہے، لیکن جو نصیحت ٹکراؤ کا سبب بن جائے، وہ باعتبارِنتیجہ نصیحت نہیں ہے، بلکہ فتنہ انگیزی ہے۔
یہ بات بے حد حکمت پر مبنی ہے کہ صاحبِ امر اگر نصیحت کو قبول کرلے تو ناصح کو اللہ کا شکر اداکرنا چاہیے کہ اس کو ایک نیک کام کرنے کی توفیق ملی، اور اگر وہ نصیحت قبول نہ کرے تو ناصح پر لازم ہے کہ وہ اس کے بعد چپ ہوجائے۔ کیوں کہ ناصح کا جو فریضہ تھا، اس کو ناصح نے ادا کردیا۔ اگر صاحبِ امر نصیحت قبول نہ کرے تو اس کے بعد اس کا اعلان کرنا، یا اس کے خلاف تنقید کی مہم شروع کرنا، نصیحت نہیں ہے، بلکہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے وہ فتنہ انگیزی ہے، اور فتنہ انگیزی اپنے آپ میں ایک بہت بڑا گنا ہ ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صاحب امر اگر غلطی کرے تو اس کو خیر خواہانہ نصیحت کرنا ہے۔ ایسی حالت میں ناصح اگر یہ کرے کہ وہ صاحبِ امر کے خلاف ہتھیار اٹھالے، یا وہ اس کے خلاف اپوزیشن کی تحریک چلائے تو خود ناصح نے ایک ناقابلِ معافی گناہ کا کام کیا۔